سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(230) التحقیق القوی فی عدم سماع الحسن البصری من علی رضی اللہ عنہ

  • 13755
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2580

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا امام حسن بصری رحمہ اللہ کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت ہے؟

طاہر القادری (بریلوی) نے ’’القول القوی فی سماع الحسن عن علی‘‘ نامی رسالہ لکھا ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حسن بصری کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت ہے۔ اس مسئلے میں آپ کی کیا تحقیق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام ابو سعید الحسن بن ابی الحسن: یشار البصری رحمہ اللہ ۲۱ یا ۲۲ ہجری کو پیدا ہوئے اور ۱۱۰ھ میں وفات پائی، آپ کے ثقہ فقیہ فاضل ہونے پر اتفاق ہے۔

حسان بن ابی سنان البصری رحمہ اللہ (صدوق عابد / تقریب التہذیب: ۱۲۰۰) سے روایت ہے کہ میں نے حسن (بصری) کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ادرکت سبعین بدریا و صلیت خلفهم واخذت بحجزهم‘‘ میں نے ستر (۷۰) بدریوں کو پایا، ان کے پیچھے نمازیں پڑھیں اور ان کا دامن تھاما۔ (حلیۃ الاولیاء ج۶ ص۱۹۶، و سندہ حسن)

اس روایت کے راوی ریاح بن عمرو القیسی پر امام ابوداود کی جرح امام ابوداود سے ثابت نہیں ہے، کیونکہ اس جرح کا راوی ابو عبید الآجری مجہول الحال ہے۔

امام حسن بصری کے درج بالا قول سے معلوم ہوا کہ انھوں نے بچپن میں ستر بدری صحابہ کو دیکھا تھا، لیکن کیا ان سے احادیث بھی سنی تھیں؟ اس کا کوئی ذکر اس روایت میں نہیں ہے۔ ستر بدری صحابہ سے مراد دو گروہ ہی ہوسکتے ہیں:

اول:         وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جنھوں نے غزوۂ بدر میں شمولیت اختیار کی تھی۔

دوم:         بدر نامی علاقے کے رہنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین۔

اگر اول الذکر مراد ہو تو سوال یہ ہے کہ کیا ان جلیل القدر صحابہ کرام میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی تھے، جن سے حسن بصری کو رویت (دیکھنے) کا شرف حاصل ہوا؟

حافظ ابو الحجاج المزی وغیرہ علماس کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا۔

دیکھئے تہذیب الکمال (ج۲ ص۱۱۴، طبعہ مصغرہ: موسسۃ الرسالہ)

یونس بن عبید سے روایت ہے کہ میں نے حسن بصری سے پوچھا: اے ابوسعید! آپ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، حالانکہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں پایا؟ انھوں نے جواب دیا: اے بھتیجے! تم نے مجھ سے ایسی چیز کے بارے میں پوچھا ہے جس کے بارے میں پہلے کسی نے نہیں پوچھا، اور اگر میرے نزدیک تمھارا (بڑا) مقام نہ ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ بتاتا، میں جس زمانے میں ہوں تم دیکھ رہے ہو (وہ حجاج بن یوسف کا زمانہ تھا) تم نے مجھے جب بھی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہوئے سنا ہے تو وہ علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے ہے، وجہ یہ ہے کہ میں اس زمانے میں علی (رضی اللہ عنہ) کا نام نہیں لے سکتا۔ (تہذیب الکمال ۱۲۱/۲، الحاوی للفتاوی ۱۰۲/۲، محمد طاہر القادری بریلوی کا رسالہ: القول القوی فی سماع الحسن عن علی رضی اللہ عنہ ص۴۴)

یہ درج بالا ساری روایت کئی وجہ سے بلحاظِ سند ثابت نہیں ہے:

اول:         اس کا راوی عطیہ بن محارب نامعلوم (مجہول) ہے۔

دوم:         ثمامہ بن عبیدہ ضعیف ہے۔ ابو حاتم الرازی نے فرمایا: ’’منکر الحدیث‘‘ نیز علی بن المدینی سے اسے سخت ضعیف اور جھوٹ بولنے والا قرار دیا۔ (الجرح و التعدیل ۴۶۷/۲)

سوم:         محمد بن موسیٰ بن نفیع الحرشی بھی مجروح ہے۔ حافظ ابن حجر نے کہا:

’’لین‘‘ یعنی ضعیف (تقریب التہذیب: ۶۳۳۸)

چہارم:      محمد بن حنیفہ الواسطی کے بارے میں امام دارقطنی نے کہا: ’’لیس بالقوی‘‘ (سوالات الحاکم للدارقطنی: ۲۱۹ اور لسان المیزان ۱۵۰/۵)

اس ضعیف و مردود سند سے طاہر القادری نے استدلال کرکے اپنی ’’ڈاکٹریٹ‘‘ کا صحیح تعارف کرا دیا ہے!

                سیوطی وغیرہ نے چند روایات ایسی پیش کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، ان روایات میں سے ایک روایت بھی صحیح و ثابت نہیں، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

۱:             سیوطی نے مسند ابی یعلیٰ (؟) سے امام ابو یعیلیٰ کی سند کے ساتھ عقبہ بن ابی الصہباء الباہلی سے نقل کیا: ’’سمعت الحسن یقول: سمعت علیا یقول قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: مثل امتی مثل المطر‘‘ (الحاوی للفتاوی ۱۰۴/۲، اتحاف الفرقۃ برفوالخرفۃ)

کسی محمد بن الحسن بن الصیر فی نے اس روایت کو حسن کے علی رضی اللہ عنہ سے سماع میں نص صریح قرار دیا ہے لیکن عرض ہے کہ اس ’’نص صریح‘‘ سے استدلال کئی وجہ سے غلط و مردود ہے:

اول:         یہ روایت مسند ابی یعلیٰ مں نہیں ملی لہٰذا سوال یہ ہے کہ کس نے اسے امام ابویعلیٰ سے روایت کیا ہے؟

سیوطی نے کہا: ’’قال الحافظ ابن حجر: ووقع فی مسند ابی یعلیٰ قال……‘‘ الخ حافظ ابن حجر نے کہا: اور مسند ابی یعلیٰ میں ہے کہ انھوں نے فرمایا…… (الحاوی للفتاوی ۱۰۴/۲)

حافظ ابن حجر کی کسی کتاب میں سیوطی کا منسوب کردہ یہ قول نہیں ملا اور حافظ ابن حجر ۸۵۲ھ میں وفات پاگئے تھے اور سیوطی ۸۴۹ھ میں پیدا ہوئے لہٰذا حافظ ابن حجر سے سیوطی کا سماع ثابت نہیں ہے، یعنی سیوطی کی یہ نقل منقطع اور بے سند ہے۔

دوم:         خود حسن بصری نے فرمایا کہ انھوں نے بالمشافہ حدیث (سننے) کے ساتھ بدریوں میں سے کسی سے بھی ملاقات نہیں کی……الخ (کتاب المعرفۃ و التاریخ ج۲ ص۳۵ و سندہ صحیح)

قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمیں حسن (بصری) ن کسی بدری صحابی سے ملاقات کا نہیں بتایا۔ (طبقات ابن سعد ج۷ ص۱۵۹، و سندہ صحیح)

یہ ظاہر ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بدری صحابی تھے اور امام حسن بصری نے اپنے بارے میں بالکل سچ فرمایا ہے لہٰذا سیوطی کی بے حوالہ نقل (؟) مردود ہے۔

یاد رہے کہ ابن الصیر فی سے بھی سیوطی کی نقل محل نظر ہے۔

۲:حدیث المصافحة… ’’عیسی القصار (؟) قال: صافحت الحسن البصری قال: صافحت علی بن ابی طالب……الخ (الحاوی للفتاوی ج۲ ص۱۰۴)

یہ ساری روایت مجہول راویوں کی وجہ سے مردود ہے۔

عیسیٰ القصار علی بن الرزینی اور احمد بن محمد النغروی وغیرہم کون تھے؟ اللہ ہی جانتا ہے۔

جو شخص صوفیوں کی اس سند کو صحیح سمجھتا ہے، اس پر یہ لازم ہے کہ ابن مسدی سے لے کر حسن بصری تک ہر راوی کا ثقہ یا صدوق ہونا باحوالہ ثابت کر دے۔

۳:            سعید بن ابی عروبہ عن عامر الاحول عن الحسن کی سند سے مروی ہے کہ قال: ’’شهدت علیارضی الله عنه بالمدینة……‘‘ میں نے مدینے میں علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔ (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ و الجماعہ للالکائی؟، الحاوی للفتاوی ۱۰۴/۲)

یہ روایت کئی وجہ سے ضعیف و مردود ہے:

اول:         سعید بن ابی عروبہ مدلس تھے اور روایت عن سے ہے۔

دوم:         تمیم بن محمد کی توثیق مطلوب ہے۔

سوم:         محمد بن احمد بن حمدان نامعلوم ہے۔

چہارم:      احمد بن محمد الفقیہ کا تعین مطلوب ہے۔

پنجم:          السنہ للالکائی میں یہ روایت نہیں ملی۔

۴:            سلیمان بن سالم القرشی نے علی بن زید (بن جدعان) سے روایت کیا، اس نے حسن بصری سے روایت کیا کہ انھوں نے علی اور زبیر رضی اللہ عنہما کو باہم معانقہ کرتے ہوئے دیکھا…… الخ (التاریخ الصغیر للبخاری ۱۹۹/۲ رقم ۲۲۹۵، دوسرا نسخہ ۱۸۲/۲، التاریخ الاوسط للبخاری وھو المشھور بالتاریخ الصغیر ۶۹۰/۴ ح۱۰۶۸، الکامل لابن عدی ۲۷۰/۳ رقم ۷۴۲، دوسرا نسخہ ۱۱۹/۳، تیسرا نسخہ ۲۶۲/۴)

اس روایت کا راوی علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب: ۴۷۳۴)

جمہور نے اسے ضعف قرار دیا ہے۔ دیکھئے زاوائد سنن ابن ماجہ للبوصیری (۲۲۸) اور مجمع الزوائد (۲۰۶/ث، ۲۰۹) 

تنبیہ:

حاکم نیشاپوری نے حسن کی علی رضی اللہ عنہ سے روایت کو صحیح کہا ہے۔

(المستدرک ۳۸۹/۴ ح۷۱۶۹) لیکن ذہبی نے ’’فیہ ارسال‘‘ کہہ کر اس روایت کے منقطع ہونے کی صراحت کر دی ہے۔ دیکھئے تلخیص المستدرک (۳۸۹/۴)

امام بخاری نے حسن عن علی کی ایک روایت کو ’’حسن‘‘ کہا اور فرمایا: حسن نے علی کو پایا ہے۔ (العلل الکبیر للترمذی ۵۹۳/۲، ابواب الحدود)

شمس الدین ابن الجزری (متوفی ۸۳۳ھ) نے حسن عن علی والی ایک روایت کو ’’وھذا حدیث صحیح الاسناد‘‘ کہا۔ (مناقب الاسد الغالب ج۱ ص۷۲، از مکتبہ شاملہ)

یہ اقوال جمہور علماء کی تحقیق کے خلاف ہونے کی وجہ سے مرجوح ہیں۔

طاہر القادری نے ضعیف روایات لکھ کر دعویٰ کیا ہے کہ ’’یہ تمام روایات صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے احادیث کا سماع کیا اور ان سے بکثرت طریقت و معرفت کا فیان حاصل کیا تھا۔‘‘ (القول القوی ص۸۵)

عرض ہے کہ طاہر القادر کی مذکورہ روایات ضعیف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں لہٰذا بکثرت طریقت و معرفت کے فیضان حاصل کرنے کا دعویٰ باطل ہے۔

ان غیر ثابت روایات کے بعد وہ دلائل پیش خدمت ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حسن بصری رحمہ اللہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سنا تھا:

۱)            حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ’’انه [ما] لقی احدا من البدریین شافهه بالحدیث……‘‘ انھوں (یعنی حسن بصری) نے کسی ایک بدری صحابی سے حدیث سننے والی ملاقات نہیں کی۔ (کتاب المعرفۃ والتاریخ للامام یعقوب بن سفیان الفارسی ج۲ ص۳۵ و سندہ صحیح)

۲)           حسن بصری کے شاگرد قتادہ نے کہا: ہمیں حسن (بصری) نے نہیں بتایا کہ کسی بدری صحابی سے ان کی ملاقات ہوئی ہو۔ (طبقات ابن سعد ج۷ ص۱۵۹، وسندہ صحیح، سیر اعلام النبلاء ج۴ ص۵۶۷)

۳)           اسماء الرجال کے مشہور امام علی بن المدینی رحمہ اللہ (متوفی ۲۳۴ھ) نے فرمایا:

حسن نے علی (رضی اللہ عنہ) کو نہیں دیکھا الا یہ کہ انھوں نے بچپن میں انھیں دیکھا ہو۔ (المراسیل لابن ابی حاتم ص۳۲ و سندہ صحیح)

۴)           امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ (متوفی ۲۶۴ھ) نے فرمایا: حسن (بصری) نے (سیدنا) عثمان اور علی (رضی اللہ عنہما) کو دیکھا اور ان سے کوئی حدیث نہیں سنی۔ (المرسیل لابن ابی حاتم ص۳۱ ملخصا و سندہ صحیح)

۵)           امام ابو عیسیٰ الترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا: اور ہمیں حسن (بصری) کا علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ سے سماع معلوم نہیں ہے۔ (جامع الترمذی: ۱۴۲۳)

۶)           حافظ ابو الحجاج المزی رحمہ اللہ نے فرمایا:

حسن (بصری) نے علی بن ابی طالب، طلحہ بن عبید اللہ اورعائشہ کو دیکھا اور ان میں سے کسی ایک سے بھی ان کا سماع صحیح ثابت نہیں ہے۔ (تہذیب الکمال ج۲ ص۱۱۴، نسخہ موسسۃ الرسالہ)

۷)      حافظ ذہبی نے کہا: حسن بصری نے علی اور ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) دونوں سے یہیں سنا۔ (سیر اعلام النبلاء ج۴ ص۵۶۶)

۸)           حافظ ابن حجر العسقلانی ن کہا: حسن بصری نے علی (رضی اللہ عنہض سے نہیں سنا۔ (اتحاف المہرہ ج۱۱ ص۳۴۱ قبل ح۱۴۱۵۵)

۹)            امام ابو حاتم الرازی نے قتادہ عن ’’الحسن عن علی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ والی روایت کے بارے میں فرمایا: ’’وھو مرسل‘‘ اور وہ مرسل (منقطع) ہے۔ (علل الحدیث لابن ابی حاتم طبعہ محققہ ج۱ ص۵۲۰ ح۶۵۷)

۱۰)          بیہقی نے حسن عن علی والی روایت کو ’’منقطع‘‘ کہا۔ (معرفۃ السنن والآثار ۲۶۶/۶ ح۴۹۸۰، الدیات باب قتل الرجل بالمرأۃ)

اور کہا: ’’وقالوا: روایة الحسن عن علی لم تشبت۔ واهل العلم بالحدیث یرونها مرسلة‘‘ اور انھوں (محدثین) نے کہا: حسن کی علی سے روایت ثابت نہیں ہے۔ حدیث کے علماء اسے مرسل (منقطع) سمجھتے ہیں۔ (معرفۃ السنن والآثار ۸۷/۳، صلوٰۃ الخوف)

نیز دیکھئے الجوہر النقی (۳۳۰/۳)

۱۱)           ابن الترکمانی حنفی نے کہا:

’’الحسن ایضا لم یسمع علیا۔‘‘ اورحسن نے علی (رضی اللہ عنہ) سے سنا بھی نہیں۔ (الجوہر النقی ج۴ ص۲۸۶)

۱۲)          ابن عراق الکنانی (متوفی ۹۶۳ھ) نے کہا:

’’وهو من حدیث الحسن عن علی ولم یلقه‘‘ اور وہ حسن کی علی (رضی اللہ عنہ) سے حدیث میں سے ہے اور انھوں نے علی سے ملاقات نہیں کی۔ (تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الموضوعۃ ۲۶۷/۲ ح۱۳۳، کتاب الاطعمہ)

۱۳)         ابن عبدالہاوی نے کہا: ’’الحسن لم یسمع من علی‘‘ حسن نے علی (رضی اللہ عنہ) سے نہیں سنا۔ (تنقیح تحقیق احادیث التعلیق ۲۱۲/۳ ح۱۸۷۱، از مکتبہ شاملہ)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جمہور محدثین و علماء کے نزدیک حسن بصری رحمہ اللہ کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت عدم سماع کی وجہ سے منقطع (یعنی ضعیف) ہے۔

تنبیہ:

سیوطی نے اتحاف الفرقۃ برفوالخرقۃ (فرقے کا تحفہ، خرقے یعنی پرانے پھٹے ہوئے کپڑے کے ٹکڑے [چیتھڑے] کی مرمت) کے عنوان سے جس صوفیانہ خرقے کی طرف اشارہ کیا ہے، اس کے بارے میں اہل تصوف کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ خرقہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حسن بصری رحمہ اللہ کو پہنایا تھا اور حسن بصری نے اپنے شاگرد کو پہنایا پھر اسی طرح آگے صوفیاء میں یہ (چوغہ پہننے کی) رسم چلی۔

عرض ہے کہ اس صوفیانہ خرقے اور چوغے کا کوئی ثبوت کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے بلکہ کسی ضعیف حدیث میں بھی نہیں ہے۔

سخاوی (صوفی) نے لکھا ہے: ’’قال ابن دحیة و ابن الصلاح: انه باطل و کذا قال شیخنا……‘‘ ابن وحیہ اور ابن الصلاح نے کہا: یہ باطل ہے اور اسی طرح ہمارے استاذ (حافظ ابن حجر) نے فرمایا…… (المقاصد الحسنہ ص۳۳ۃ ح۸۵۲ حرف اللام)

پھر سخاوی نے حافظ ابن حجر سے نقل کیا کہ یہ جھوٹ اور افتراء ہے کہ علی (رضی اللہ عنہ) نے حسن بصری کو خرقہ پہنایا تھا کیونکہ حدیث کے اماموں نے حسن کا علی سے سماع ہی ثابت قرار نہیں دیا، کجا یہ کہ وہ ان سے خرقہ پہنیں؟

پر سخاوی نے کہا: ہمارے استاذ (ابن حجر) اس بیان میں اکیلے نہیں بلکہ ومیاطی، ذہبی، ہکاری، ابوحیان، علائی، مغلطائی، عرقای، ابن الملقن، ابناسی، برہان الحلبی اور ابن ناصر الدین نے بھی یہی بات کہی ہے۔ (المقاصد الحسنہ ص۳۳۱)

نیز دیکھئے الاسرار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعہ لملا علی قاری (ص۲۷۰۔۲۷۱ ح۳۵۶)

خرقے والے قصے کے بارے میں حافظ ذہبی نے کلام کرکے اس کا منقطع ہونا ثابت کیا ہے۔ دیکھئے تاریخ الاسلام للذہبی (۱۸۴/۱۰، وفیات ۱۶۱-۱۷۱ھ)

سیدنا حسن بصری رحمہ اللہ تک بعض صوفیاء کے سلسلوں کی متصل صحیح سند بھی کہیں موجود نہیں ہے اور اس سلسلے میں تمام صوفیانہ دعاوی کذب و افتراء سے لبریز ہیں مثلاً حسین احمد مدنی (دیوبندی) کے ’’سلاسل طیبہ‘‘ (ص۸) میں وسیلے والا سلسلہ بلحاظِ سند ثابت نہ ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔ 

صوفیا اور بعض علماء کا خرقہ پہننا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے امام حسن بصری کو یہ خرقہ (صوفیانہ چوغہ) پہنایا تھا لہٰذا اتخاف الفرقہ سے خرقہ رفو نہیں ہوا بلکہ اور زیادہ پھٹ گیا۔ یہ اس وقت رفو ہوگا جب اس کی صحیح متصل سند پیش کی جائے گی۔

اس ساری بحث سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سنا تھا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص510

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ