سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(46) قضا عمری بدعت ہے؟

  • 13744
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 2341

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی اپنی دس سالہ عمر سے ۳۵ سالہ عمر تک بے نماز رہا، اب اس نے باقاعدہ پابندی کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کر دی ہے۔ اب وہ اپنی ۲۵ سالہ قضا شدہ نمازوں کے لیے کیا کرے۔ (سائل: محمد نوید لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام میں قضا کا کوئی تصور اورثبوت نہیں۔ ان نمازوں کی تلافی کی واحد صورت یہ ہے کہ خالص توبہ کر کے استغفار کیا جائے اور جہاں تک ممکن ہو بکثرت نوافل پڑھے جائیں تا کہ جرم ہلکا ہو جائے۔ قرآن مجید اور احادیچ سے یہی ثابت ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

(فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ أَضاعُوا الصَّلوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوتِ فَسَوفَ يَلقَونَ غَيًّا ﴿٥٩ إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ صـلِحًا فَأُولـئِكَ يَدخُلونَ الجَنَّةَ وَلا يُظلَمونَ شَيـًٔا ﴿٦٠﴾... سورة مريم

’’پھر ان (انبیاء اور صالحین) کے بعد ایسے نالائق جانشین ہوئے کہ انہوں نے نماز کو ضائع کیا اور نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ گئے۔ پس اس کی پاداش اٹھائیں گے۔ لیکن (ان میں سے) جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے وہ  جنت میں داخل ہوں گے اور ذرہ بھر بھی ان پر ظلم نہ ہوگا۔‘‘ (تفسیر ثنائی: صورۃ مریم آیات ۵۹،۵۶)

شیخ الاسلام مولانا ثناء امر تسری ان آیات کی تفسیر میں ارقام فرماتے ہیں:

’’مگر یہ کیفیت اور کمال ان (انبیاء اور صالحین) کی زندگی ہی تک رہا، پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین ہوئے، جن میں پہلی برائی تو یہ تھی کہ انہوں نے احکام شرعیہ سے روگردانی کی اور نماز جیسے ضروری حکم کو ضائع کیا اور نفسانی شہوات کے پیچھے پڑ گئے، پس اس کی پاداش اٹھائیں گے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق سے بڑی محبت ہے ایسی کہ ماں کو بیٹے سے بھی نہ ہو، اس لیے جو لوگ توبہ کر کے ایمان لائے اور نیک عمل کئے تو پہلی زندگی میں ان سے غلطیاں بھی ہو چکی ہوں، وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ذرہ بھر بھی ان پر ظلم نہ ہوگا۔‘‘

ان آیات سے معلوم ہوا کہ توبہ کا دروازہ ان مجرموں کے لیے بھی بند نہیں جو گناہ گار سچے دل سے توبہ کر کے ایمان وعمل صالح کا راستہ اختیار کر لیں اور اپنا چال چلن درست رکھیں، جنت کے دروازے اس کے لیے بھی کھلے ہیں۔ توبہ کے بعد جو عمل کرے گا سابق جرائم کی بنا پر اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں ک ی جائے گی۔ نہ کسی قسم کا حق ضائع ہو گا۔ حدیث میں ہے التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ’’گناہ سے سچی توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے گناہ ہی نہ تھا‘‘۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

تارك الصلوٰة عمدا لا یشرع له قضاءھا ولا تصح منه بل یکثر من التطوع۔ (فقه السنة: ج۱، ص۲۳۲)

’’جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے کو یہ جائز ہی نہیں کہ وہ اس نماز کو بعد از وقت پڑھے، اگر پڑھے گا تو وہ صحیح نہ ہوگی بلکہ بےوقت نماز کے بجائے بکثرت نفل پڑھے۔‘‘

امام ابن حزم ارقام فرماتے ہیں:

واما من تعمد ترك الصلوٰة حتی خرج وقتھا ھذا لا یقدر علی قضاءھا ابدا، فلیکثر من فعل الخیر وصلاة التطوع لیثنل میزانه یوم القیامة ولیتب ولیستغفراللہ عزوجل۔ (فقه السنة: ج۱، ص۲۳۲)

’’جو شخص جان بوجھ کر نماز نہ پڑھے اور اس نماز کا وقت چلا جائے تو یہ شخص اس نماز کی قضا پر کبھی قادر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اس کو اب نیک عمل اور نماز نفل بکثرت پڑھنے چاہییں تاکہ قیامت کے دن اس کا نیکیوں والا ترازو بھاری ہو جائے۔ اسے توبہ اور استغفار کرنا چاہیے اور یہی حل ہے اس گناہ کا۔‘‘

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿وَالَّذينَ إِذا فَعَلوا فـحِشَةً أَو ظَلَموا أَنفُسَهُم ذَكَرُوا اللَّهَ فَاستَغفَروا لِذُنوبِهِم...﴿١٣٥﴾... سورة آل عمران

﴿فَمَن يَعمَل مِثقالَ ذَرَّةٍ خَيرًا يَرَهُ ﴿٧ وَمَن يَعمَل مِثقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴿٨﴾... سورة الزلزال

﴿ وَنَضَعُ المَوزينَ القِسطَ لِيَومِ القِيـمَةِ فَلا تُظلَمُ نَفسٌ شَيـًٔا...﴿٤٧ ... سورة الأنبياء

وأجمعت الامة وبه وردت النصوص کلھا علی ان للتطوع جزاء من الخیر اللہ اعلم بقدرہ وللفریضة أیضا جزء من الخیر اللہ اعلم بقدرہ فلا بد ضرورة من ان یجتمع من جزء التطوع اذا کثر ما یوازی جزء الفریضة ویزید علیه وقد اخیر اللہ تعالی انه لا یضیع عمل عامل وان الحسنات یذھبن السیئات۔ (فقه السنة: ج۱، ص۲۳۴)

’’اور اس بات پر امت کا اجماع ہے اور نصوص بھی اس کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کہ نوافل بھی نیک عمل کا حصہ ہیں، جس کی مقدار اللہ ہی جانتا ہے اور فرائض بھی نیک عمل کا جز ہیں اور اس جزء کی مقدار کا علم بھی اللہ عزوجل ہی کو ہے، پس یہ کوئی بعید نہیں کہ جب نوافل بکثرت پڑھے جائیں تو جمع ہو کر فرائض کے حصے کے برابر ہو جائیں بلکہ بڑھ جائیں اور اللہ تعالیٰ یہ بھی خبر دے چکا ہے کہ وہ کسی کے نیک عمل کو ضائع نہیں دے گا اور نیکیاں برائیوں کو کھا جاتی ہیں۔‘‘

پس ان نصوص کے پیش نظر قضا عمری کی کھکھیڑ میں پڑنے بجائے توبہ واستغفار، کارہائے خیر اور نوافل بکثرت پڑھتے رہنا چاہیے۔ سلامتی اور نجات کی راہ یہی ہے اور بس۔

قضا عمری کے دلائل اور ان کاجائزہ:

قضا عمری کے ثبوت میں حسب ذیل روایات پیش کی جاتی ہیں:

۱۔ جابرؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے نماز چھوڑے رکھی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: جتنی نمازیں تو نے چھوڑی ہیں ان کی قضا کرو۔ اس نے عرض کیا وہ کیسے؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ہر نماز کی ساتھ ایک اور نماز ادا کرو۔ اس نے کہا: پہلے یا بعد میں؟ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ پہلے۔

یہ روایت بے اصل اور من گھڑت ہے۔ امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس کو موضوعات (ج۲ص۱۰۲) میں روایت کیا ہے اور اس کو موضوع کہا ہے۔ لہٰذا اس سے حجت پکڑنا کسی طرح جائز نہیں۔

۲۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ طائف سے ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور نمازیں بھی چھوڑے رکھی ہیں۔ اب میرا کیا بنے گا: رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تو نے توبہ کر لی ہے اور تجھے اپنے کیے پر شرمندگی بھی ہے۔ اب ایسا کرو کہ جمعرات کو آٹھ رکعت نماز پڑھو اور ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۂ فاتحہ اور پچھیس مرتبہ سورۂ اخلاص قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدً پڑھو اور نماز سے فارغ ہو کر ہزار بار صلی اللہ علی محمد النبی الامی کا وظیفہ کرو۔ یہ آپ کی قضا شدہ نمازوں کا کفارہ ہو گا۔ خواہ تم نے دو سو برس کی نمازیں ہی کیوں نہ ضائع کی ہوں۔ حسب سابق یہ روایت بھی جھوٹی اور موضوع ہے۔ امام ابن جوزیؒ نے اس کو موضوع اور جعلی قرار دیا ہے۔ (کتاب موضوعات: ج۲، ص۱۳۵، ۱۳۶)

۳۔ نہایہ شرح ہدایہ میں ایک بے اصل اور باطل روایت یہ بھی ہے:

جو شخص رمضان کے آخری جمعہ کو کسی فرض نماز کی قضا کرے گا تو یہ ستر برس کی قضا شدہ نمازوں کی تلافی کر دے گی۔

مولانا عبدالحی لکھتے ہیں:

قال علی القاری فی تذکرة الموضوعات عند حدیث من قضی صلوٰة من الغرائض فی آخر جمعة من رمضان کان جابرا لکل فائتة فی عمرہ إلی سبعین سنة بعد الحکم بانه باطل لا اصل له۔ (مقدمة عمدة الرعایة: ج۱، ص۱۳)

یہ وایت بھی سراسر جھوٹی اور موضوع ہے۔ جناب ملا علی قاری حنفی نے اس کو اپنی کتاب ’’الموضوعات الکبری‘‘ میں روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ روایت باطل، یعنی من گھڑت اور جھوٹی ہے۔ مزید یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ روایت اس اجماع امت کے خلاف ہے کہ عبادات میں کوئی عبادت بھی کئی برس کی قضا شدہ عبادت کے نقصان کو پورا نہیں کر سکتی۔

(شبہ) رہی یہ بات کہ اگر کوئی یہ کہے کہ ہدایہ کے شارحین صاحب نہایہ وغیرہ بڑے فاضل اور فقیہ تھے۔ کیا ان کو ان روایتوں کے موضوع اور جھوٹی ہونے کا علم ہی نہ تھا۔ اگر یہ روایات موضوع اور باطل ہوتیں تو یہ نامور فقیہ ان روایات ہدایہ جیسی نامی گرامی کتاب کی شروحات میں ہرگز درج نہ فرماتے۔

اس تحدی کا جواب یہ ہے کہ صاحب نہایہ اور ہدایہ کے دوسرے شارحین بلا شبہ بہت بڑے فقیہ اور دنیائے احناف کی بڑی قدآور شخصیات ہیں، وہ سب کچھ تھے مگر وہ علم حدیث میں طفل مکتب بھی نہ تھے، یہ ہمارا ہی کہنا نہیں، بلکہ محقق علمائے احناف کا کہنا ہے، ملا علی قاری نہایہ شرح ہدایہ کی اس روایت کو باطل لاأصل لہ کہنے کے بعد یہ تصریح فرماتے ہیں:

ثم لا عبرة بنقل صاحب النھایة ولا بقیة شراح الھدایة فإنھم لیسوا من المحدثین ولا اسندواالحدیث إلی احد من المخرجین۔ (عندة الرعایة مقدمه شرح الوقابة: ص۱۳)

’’صاحب نہایہ اور ہدایہ کے دوسرے شارحین کی نقل کردہ احادیث کا کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ ایک تو وہ محدث نہ تھے اور دوسرے یہ کہ انہوں نے ان احادیث کو ان کے مخرجین کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔‘‘

ابوالحسنات عبدالحی حنفی تصریح فرماتے ہیں:

وھذا الکلام من القاری افاد فائدة حسنة وھی ان الکتب الفقھیة وإن کانت معتبرة فی أنفسھا بحسب المسائل الفرعیة وکان مصنفوھا ایضا من المعتبرین والفقھاء الکاملین لا یعتمد علی الأحادیث المنقولة فیھا إعتمادا کلیا ولا یجزم بورودھا وثبوتھا بمجرد وقوعھا فیھا فکم من احادیث ذکرت فی الکتب المعتبرة وھی موضوعة ومختلقة کحدیث لسان اھل الجنة العربیة أوالغارسیة۔ (عمدة الرعایة مقدمة، شرح الوقایة: ص۱۳)

’’قاری کی یہ کلام بڑی مفید ہے کیونکہ اگرچہ یہ ہماری فقہی کتابیں فروعی مسائل کے لحاظ سے اپنی حد تک معتبر ہیں اور ان کے مصنف بھی قابل اعتبار اور کامل فقہاء تھے، لیکن پھر بھی ان کتب میں مندرجہ احادیث پر اعتماد کلی نہیں کیا جا سکتا اور ان کتابوں میں ان احادیث کے محض درج ہو جانے سے ان کی صحت کا یقین نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ کتنی ایسی احادیث ہماری ان معتبر کتابوں میں درج ہیں جو موضوع، بے اصل اور مختلف فیہا ہیں جیسے یہ حدیث کہ جنتیوں کی زبان عربی اور فارسی ہو گی۔ یا جیسے یہ حدیث متقی عالم کی اقتدا میں پڑھنا ایسا ہے جیسے کہ نبی کی اقتدا میں نماز پڑھی جائے۔ یا جیسے یہ حدیث میری امت کے علماء اسرائیلی انبیاء جیسے ہیں وغیرہ وغیرہ۔‘‘

خلاصہ یہ کہ قضا عمری کے ثبوت میں نہ تو کوئی آیت موجود ہے اور نہ کوئی صحیح بلکہ ضعیف حدیث بھی موجود نہیں اور جوروایات پیش کی جاتی ہیں وہ محض جھوٹی اور بے اصل ہیں۔ یہ بدعت ہے اور بدعت ہے اور بدعت سے اجتناب واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ سنت  ثابتہ صحیحہ پر عمل کی توفیق عطافرمائے آمین۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص278

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ