سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(193) چند روایات کی تحقیق

  • 13714
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 9763

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ روایات لکھ کر بھیج رہا ہوں۔ ان روایات کو الحدیث میں شائع کریں۔ اور مجھے بھی جوابی لفافے میں ارسال فرمائیں۔

روایت نمبر۱: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں بچھو ڈس گیا۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی اور نمک منگوا کر اس کے اوپر ملا اور ساتھ ساتھ قل یایھا الکفرون، قل ھواللہ احد، قل اعوذ برب الناس۔ پڑھتے رہے۔ (مجمع الزوائد، ۵؍۱۱۱، وقال الہیثمی:اسنادہ حسن)

روایت نمبر۲: طفیل بن عمروالدوسی رضی اللہ عنہ کا واقعہ کہ انہیں لوگوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن نہ سننا، تو انہوں نے اپنے کانوں میں روئی دے لی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے قریب قرآن پڑھتے ہوئے سنا۔ انہوں نے کانوں سے روئی نکالی اور قرآن سننا شروع کردیا۔ خود شاعر ھی تھے تو کہنے لگے کہ یہ کسی شاعر کا کلام نہیں چنانچہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اکثر اہلحدیث خطباء واعظین یہ واقعہ بیان کرتے ہیں، اس کی علمی میدان میں کیا حیثیت ہے وضاحت فرمائیں؟

روایت نمبر۳: مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک عورت کوڑا پھینکتی تھی۔ ایک دن اس نے کوڑا نہ پھینکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر چلے گئے اس کے گھر کو صاف کیا۔ پانی بھرا تو وہ عورت آپ کا اخلاق دیکھ کر مسلمان ہوگئی۔ (بحوالہ تعلیمی نصاب کی کتابیں)

اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے کہ یہ واقعہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے یا صرف منہ کی بات ہے یا گورنمنٹ کا نصاب ہی اس کا حوالہ ہے، وضاحت فرمائیں۔

روایت نمبر۴: مروی ہے کہ ایک عورت مکہ کے اندر خریداری کے لیے آئی تو اس عورت کو کہا گیا کہ یہاں ایک شخص ہے اس کی بات نہ سننا وہ جادوگر ہے۔ شاعر ہے۔ اس عورت نے گٹھڑی اٹھائی مکہ سے باہر نکل کر بیٹھ گئی۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ادھر سے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ آپ کہاں جانا چاہتی ہیں تو اس نے بتایا فلاں جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سامان اٹھایا اور وہاں اس عورت کو پہنچا دیا تو وہ عورت کہنے لگی کہ تم اچھے آدمی معلوم ہوتے ہو۔

تمہیں نصیحت ہے کہ یہاں ایک شخص نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ جادوگر ہے اس سے بچ کر رہنا۔ اس کی باتیں سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص میں ہی ہوں۔ تو عورت کہنے لگی آپ پھر غلط نہیں ہوسکتے چنانچہ اس عورت نے اسلام قبول کرلیا۔

محترم حافظ صاحب یہ چار روایتیں لکھی ہیں ان کی تحقیق مطلوب ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز میں بچھو کا ڈسنا

  روایت نمبر۱: یہ روایت مجمع الزوائد میں بحوالہ ’’البطرانی فی الصغیر‘‘ مروی ہے۔ (۵؍۱۱۱)

’’حدثنا محمد بن الحسین الاشنائی الکوفی: حدثنا عباد بن یعقوب الاسدی: حدثنا محمد بن فضیل عن مطرف عن المنهال بن عمرو بن محمد بن الحنفیة عن علی کرم الله وجه فی الجنة۔۔۔‘‘ (۲؍۲۳ح۸۵۰)

اس سند کے راوی عباد بن یعقوب الرواجنی کا جامع تعارف درج ذیل ہے:

جرح

(۱)حافظ ابن حبان نے کہا: ’’وکان رافضیا داعیة الی الرفض ومع ذلک یروی المناکیر عن اقوام مشاهیر فاستحق الترک‘‘ وہ رافضی تھا، رافضیت کی طرف دعوت دیتا تھا اور اس کے ساتھ وہ مشہور لوگوں سے منکر روایات بیان کرتا تھا لہٰذا وہ متروک قرار دئیے جانے کا مستحق ٹھہرا۔ (المجروحین۲؍۱۷۲)

(۲)ابوبکر ابن ابی شیبہ یا ہناد بن السری نے اس پر جرح کی۔

دیکھئے الکامل لابن عدی (۴؍۱۶۵۳)

(۳)ابن عدی نے کہا: ’’وفیه غلو فیما فیه من التشیع و روی احادیث انکرت علیه فی فضائل اهل البیت وفی مثالب غیرهم‘‘ (الکامل ۴؍۱۶۵۳ دوسرا نسخہ ۵؍۵۵۹)

(۴)ابن جوزی نے اسے کتاب الضعفاء والمتروکین میں ذکر کیا۔ (۲؍۷۷ت ۱۷۸۸)

(۵)ابوحاتم الرازی نے کہا: ’’کوفی شیخ‘‘ (الجرح والتعدیل۲؍۸۸)

نیز دیکھئے کتاب الضعفاء لابی زرعۃ الرازی (۲؍۵۶۶)

تنبیہ:  حافظ مزی و ذہبی وغیرہمانے بغیر سند کے لکھا ہے کہ ابوحاتم نے کہا: ’’شیخ ثقۃ‘‘ (تہذیب الکمال مطبوعہ مصغرۃ ۴؍۶۰ وسیراعلام النبلاء ۱۱؍۵۳۷)

یہ قول باسند صحیح امام ابوحاتم رازی سے ثابت نہیں ہے۔

(۶)شیخ البانی رحمہ اللہ نے محمد بن طاہر سے نقل کیا کہ ’’من غلاة الروافض، روی المناکیر عن المشاهیر‘‘ ([الضعیفۃ ۳؍۳۸۳ ح۱۲۳۷] نیز دیکھئے اقوالِ تعدیل نمبر:۱۰)

(۷)بوصیر ی نے اس کی روایت کو ضعیف کہا ہے۔ دیکھئے یہی مضمون (تنبیہ:۱)

تعدیل

ان اقوال کے مقابلے میں درج ذیل تعدیل ثابت ہے:

۱۔            امام دارقطنی نے فرمایا: ’’شیعی صدوق‘‘ (سوالات الحاکم:۴۲۵)

۲۔           ابن خزیمہ نے کہا: ’’ناعباد بن یعقوب۔ المتھم فی رایہ، الثقۃ فی حدیثہ‘‘ (صحیح ابن خزیمہ۲؍۳۷۶، ۳۷۷ ح۱۴۹۷)

۳۔          حاکم نے ان کی حدیث کو صحیح کہا ۔ (المستدرک۲؍۴۹۲ ح۳۸۲۰، ۳؍۱۵۴ ح۴۷۳۱)

۴۔          الضیاء المقدسی نے المختارۃ میں ان سے حدیث لی ہے۔ (المختارۃ ۲؍۱۸۳ ح۵۶۲)

۵۔          حافظ ذہبی نے کہا: ’’صدوق فی الحدیث، رافضی جلد‘‘ (ذکر اسماء من تکلم فیہ وھومؤثق:۱۰۶)

۶۔           امام بخاری نے صحیح بخاری میں، متابعات میں عباد بن یعقوب سے روایت لی ہے۔ (صحیح البخاری:۷۵۳۴)

۷۔          حافظ ہیثمی نے اس کی بیان کردہ حدیث کو حسن کہا۔ (مجمع الزوائد۵؍۱۱۱)

۸۔          حافظ ابن حجر نے کہا: ’’صدوق رافضی، حدیثه فی البخاری مقرون، بالغ ابن حیان فقال: یستحق الترک‘‘ (تقریب التہذیب: ۳۱۵۳)

نیز دیکھئے ہدی الساری (ص۴۱۲) وفتح الباری (۱۳؍۵۱۰)

۹۔           ابن العماد نے کہا: ’’الحافظ الحجۃ‘‘ (شذرات الذھب ۲؍۱۲۱ وفیات ۲۵۰ھ)

۱۰۔         محمد بن طاہر الفتنی نے کہا: ’’رافضی داعیة الا انه ثقة صدوق۔۔۔‘‘ (تذکرۃ الموضوعات ص۲۶۶)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عباد بن یعقوب جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں لہٰذا وہ حسن الحدیث ہیں، اور باقی سند حسن ہے۔

خلاصۃ التحقیق: یہ روایت حسن ہے۔

تنبیہ (۱): سنن ابن ماجہ میں ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اذا انا مت فاغسلونی بسبع قرب من بئری بئر غرس‘‘ جب میں فوت ہوجائوں تو مجھے میرے کنویں بئر غرس کی ساتھ مشکوں سے غسل دینا۔ (ح۱۴۶۸ وقال البوصیری: ’’ھذا اسناد ضعیف، عباد بن یعقوب۔۔۔‘‘ الخ)

راقم الحروف نے تسہیل الحاجہ میں اسے ’’اسنادہ ضعیف‘‘ لکھا ہے۔ (قلمی ص۱۰۰)

شیخ البانی (الضعیفۃ:۱۲۳۷) اور بوصیری اس روایت کو ضعیف کہتے ہیں جب کہ الضیاء المقدسی اسے المختارہ (۲؍۱۸۳ ح۵۲۶) میں نقل کیا ہے اور انصاف یہی ہے کہ ابن ماجہ والی روایت بلحاظ سند حسن ہے۔

لہٰذا میں اپنی پہلی تحقیق سے رجوع کرتا ہوں۔ واللہ الموفق

تنبیہ (۲): بعض لوگوں نے کہا ہے کہ عباد مذکور سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتا تھا مگر اس میں سے کچھ بھی باسند صحیح و حسن ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم

طفیل بن عمروالدوسی رضی اللہ عنہ کا قصہ

روایت نمبر۲: سیدنا طفیل بن عمروالدوسی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ قصہ ’’ابن اسحاق عن عثمان بن الحویرث عن صالح بن کیسان‘‘ کی سند سے درج ذیل کتابوں میں منقول ہے:

الاستیعاب لابن عبدالبر (۲؍۲۳۲) سیر اعلام النبلاء للذہبی (۱؍۳۴۵)

تنبیہ: یہ روایت اس سند کے ساتھ کتاب المغازی لابن اسحاق کے صرف ایک نسخہ میں ہے۔ دیکھئے الاصابۃ لابن حجر (۲؍۲۲۵)

’’السیرۃ النبویۃ‘‘ لابن اسحاق (مطبوع) میں مجھے یہ روایت نہیں ملی۔

یہ سند تین وجہ سے ضعیف ہے:

(۱)ابن اسحاق مدلس ہیں اور یہ سند معنعن (عن سے) ہے۔

(۲)عثمان بن الحویرث کی توثیق نامعلوم ہے۔

(۳)صالح بن کیسان تابعی ہیں لہٰذا یہ سند مرسل ہے۔

سیرت ابن ہشام (عربی۲؍۲۲) دلائل النبوۃ للبیہقی (۵؍۳۶۰۔ ۳۶۳) تاریخ دمشق لابن عساکر(۲۷؍۹، ۱۰) البدایہ والنہایہ (۳؍۹۶، ۹۷) اور السیرۃ النبویہ لابن کثیر (۲؍۷۲۔ ۷۶) میں یہی روایت محمد بن اسحاق بن یسار سے مرسلاً منقطعاً، بغیر سند کے مروی ہے۔

اس روایت کی تائید میں بعض روایتیں مروی ہیں مثلاً دیکھئے طبقات ابن سعد (۴؍۲۳۷۔ ۲۳۹) والاصابۃ (۲؍۲۲۵) والنبلاء (۱؍۳۴۴، ۳۴۵) ان روایتوں کی سندوں میں محمد بن عمر الواقدی اور الکلبی دنوں جھوٹے راوی ہیں۔

خلاصۃ التحقیق: یہ قصہ ثابت نہیں ہے۔

کوڑا کرکٹ پھینکنے والی عورت کا قصہ

روایت نمبر۳: یہ بالکل بے اصل اور من گھڑت روایت ہے۔ ہمارے علم کے مطابق حدیث کی کسی کتاب میں بھی اس کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔

گٹھڑی والی عورت کا قصہ

روایت نمبر۴: یہ بھی بالکل بے اصل اور من گھڑت روایت ہے۔ اس قسم کی روایتیں واعظ نما قصہ گو حضرات نے گھڑی ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص448

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ