سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(188) مجھے دنیا کی تین چیزیں پسند ہیں والی حدیث کی تحقیق

  • 13709
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 11072

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے علم کے مطابق ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک دفعہ ایک مجلس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «حبب الی من دنیا کم ثلاث: الطیب والنساء وجعلت قرة عینی فی الصلوة» مجھے تمھاری دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱)خوشبو (۲)بیویاں (۳)اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ آپ کےساتھ صحابۂ کرام بھی بیٹھے ہوئے تھے تو ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱)رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چہرے کو دیکھنا (۲)رسول اللہ کے لیے اپنا مال خرچ کرنا (۳)اور یہ چاہنا کہ میری بیٹی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیوی بنے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابوبکر! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱)نیکی کا حکم دینا (۲)برائی سے منع کرنا (۳)اور پرانا (استعمال شدہ بوسیدہ) کپڑا۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے عمر! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱)بھوکوں کو پیٹ بھر کر کھلانا (۲)ننگوں کو کپڑے پہنانا (۳) اور تلاوتِ قرآن۔ پھر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے عثمان! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱)مہمان کی خدمت کرنا (۲)گرمی میں روزے رکھنا (۳)اور (میدانِ جہاد میں) تلوار چلانا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ  اسی حال میں تھے کہ جبریل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا: جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمھاری گفتگو سنی تو مجھے بھیجا اور آپ کو حکم دیا کہ مجھ سے پوچھیں کہ اگر میں دنیا والوں میں سے ہوتا تو میں کیا پسند کرتا؟ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: تم دنیا میں سے کیا پسند کرتے؟ جبریل(علیہ السلام) نے فرمایا: (۱)راستہ بھولے ہوئے لوگوں کو راستہ دکھانا (۲)غریب عبادت گزاروں کی دل جوئی (۳)اور مفلس عیال داروں کی مدد۔

جبریل (علیہ السلام) نےفرمایا: رب العزت اللہ جل جلالہ اپنے بندوں سے تین خصلتیں پسند کرتا ہے: (۱)حسب استطاعت (اللہ کےر استے میں مال و جان) خرچ کرنا (۲)ندامت کے وقت رونا (۳)اور فاقے کے وقت صبر کرنا۔ (بحوالہ منبہات لابن حجر)

گزارش ہے کہ اس حدیث کی مکمل تحقیق و تخریج عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں، نیز رسالہ (الحدیث) میں بھی شائع فرمادیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیردے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میرے علم کے مطابق یہ روایت حدیث کی کسی کتاب میں باسندہ وباحوالہ موجود نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر (العسقلانی) کی طرف منسوب کتاب ’’المنبہات‘‘ میں یہ روایت بے حوالہ اور بے سند مذکور ہے۔ (ص۲۱، ۲۲ طبع ۱۲۸۲ھ)

۱: ’’المنبہات‘‘ کا حافظ ابن حجر العسقلانی کی کتاب ہونا ثابت نہیں ہے۔ جن لوگوں نے حافظ ابن حجر کے حالات لکھے ہیں اور ان کی کتابوں کے نام لکھے ہیں مثلاً سخاوی (الضوء اللامع) شوکانی (البدر الطالع) اسماعیل پاشا بغدادی (ہدیۃ العارفین) اور زرکلی (الاعلام) وغیرہ، ان میں سے کسی نے بھی اس کتاب کو حافظ ابن حجر کی طرف منسوب نہیں کیا۔

۲:مشہور عربی محقق شیخ ابوعبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان نے اسے حافظ ابن حجر العسقلانی کی طرف ظلم، جھوٹ اور بہتان کے ساتھ منسوب کتاب قرار دیا ہے۔ دیکھئے کتب حذر منہا العلماء (ج۲ص۳۲۶)

۳:شیخ جاسم الدوسری اور شیخ عبدالرحمٰن فاخوری نے بھی حافظ ابن حجر کی طرف اس کتاب کے انتساب کو باطل قرار دیا ہے۔ (ایضاً ص۳۲۷)

۴: المنبہات کے شروع میں اس کا نام ’’منبهات۔۔۔علی الاستعداد لیوم المعاد‘‘ لکھا ہوا ہے۔ (ص۴) اور یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اس میں دو دو اور تین تین سے لے کر دس دس تک کا بیان لکھا ہوا ہے۔ (ایضاً ص۴)

حاجی خلیفہ کاتب چلپی حنفی نے اپنی مشہور کتاب ’’کشف الظنون‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’المنبهات علی الاستعداد لیوم المیعاد للنصح والوداد، مختصر لزین القضاة احمد بن محمد الحجی (الحجری) المتوفی سنة۔۔۔ جمع فیه احادیث ونصائح من الواحد الی العشرة مثنیٰ وثلاث ورباع، اوله الحمدللہ رب العالمین، الخ قال: هذه منبهات علی الاستعداد لیوم المیعاد‘‘ (کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون ج۲ص۱۸۴۸)

اس طویل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کتاب احمد بن محمد الحجی یاالحجری کی لکھی ہوئی ہے، یہ حجی یا حجری مجہول ہے، اس کے حالات کسی کتاب میں نہیں ملے۔

۵: حافظ ابن حجر العسقلانی نے ایک صوفی ابراہیم بن محمد بن المؤید بن حمویہ الجوینی (متوفی۷۲۲ھ) کے حالات میں لکھا ہے کہ حافظ ذہبی نے فرمایا: ’’کان حاطب اللیل، جمع احادیث ثنائیات و ثلاثیات ورباعیات من الاباطیل المکذوبة‘‘ وہ حاطب لیل (رات کو لکڑیاں اکٹھی کرنے والا) تھا۔ اس نے دو دو، تین تین اور چار چار والی حدیثیں جمع کی ہیں جو باطل اور جھوٹی ہیں۔ (الدررالکامنہ فی اعیان المائۃ الثامنہ ۱؍۶۸ ت۱۸۱)

معلوم یہی ہوتا ہے کہ ابن حمویہ الجوینی الصوفی (متوفی ۷۲۲ھ) کی کتاب سے اختصار کرکے ابن حجی یا ابن حجری نامی کسی مجہول شخص نے منبہات نامی کتاب لکھ دی ہے جو ناشرین یا ناسخین کی غلطیوں کی وجہ سے حافظ ابن حجر کی طرف منسوب ہوگئی ہے۔

حافظ ابن حجر نے ’’ثلاث‘‘ کی زیادت والی روایت کے بے سند ہونے کی صراحت کی ہے۔ دیکھئے التلخیص الحبیر (۳؍۱۱۶ ح۱۴۳۵) لہٰذا وہ اس روایت اور مذکورہ کتاب سے بری ہیں۔

اگر کوئی شخص دلائل سے یہ ثابت کردے کہ یہ کتاب ضرور حافظ ابن حجر العسقلانی ہی کی لکھی ہوئی ہے تو بھی یہ روایت باطل اور موضوع ہے کیونکہ اس کی کوئی سند یا حوالہ معلوم نہیں ہے۔ ہر وہ روایت جو بے سند و بے حوالہ ہو تو وہ موضوع، باطل اور مردود ہی رہتی ہے الایہ کہ صحیح سند یا صحیح حوالہ پیش کردیا جائے۔

اسماعیل بن محمد العجلونی الجراحی (متوفی ۱۱۶۲ھ) نے اسے کتاب ’’المواھب‘‘ سے نقل کرکے لکھا ہے: ’’قال الطبری: خرجہ الجندی والعھدۃ علیہ‘‘

طبری نے کہا: اسے الجندی نے روایت کیا ہے اور اس روایت کی ذمہ داری اسی پر ہے۔ (کشف الخفاء ومزیل الالباس عما اشتہرمن الاحادیث علی السنۃ الناس ج۱ص۳۴۰ ح۱۰۸۹)

عجلونی کی بیان کردہ یہ روایت احمد بن محمد القسطلانی (متوفی۹۲۳ھ) کی کتاب المواہب اللدنیہ بالمخ المحمدیہ میں اسی طرح بے سندوبے حوالہ ’’الجندی‘‘ سے بطورِ لطیفہ مذکور ہے۔ (ج۲ص۱۸۰، ۱۸۱)

الجندی نام کے کئی آدمی تھے مثلاً مفضل بن محمد ابراہیم الجندی (متوفی۳۱۰ھ)

اللہ ہی جانتا ہے کہ اس الجندی سے مراد کون ہے؟ اور اگر کوئی الجندی متعین بھی ہوجائے تو اس سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک سند معلوم نہیں ہے۔

شبراملسی (متوفی ۱۰۸۷ھ) اور خفاجی وغیرہما مولویوں نے اس روایت میں مزید بے سند اور بے حوالہ اضافہ بھی ذکر کررکھا ہے جو کہ سرے سے موضوع اور باطل ہے۔

تنبیہ بلیغ: حاجی خلیفہ حنفی نے بغیر کسی سند اور بغیر حوالے کے جلال الدین سیوطی سے نقل کررکھا ہے کہ قسطلانی میری کتابوں سے چوری کرتا ہے۔ الخ (کشف الظنون ۲؍۱۸۹۷)

ظاہر ہے کہ یہ بے سندوبے حوالہ بات مردودوباطل ہے لیکن بے سندوبے حوالہ روایتیں پھیلانے والے اس حکایت کی وجہ سے المواہب کے مصنف قسطلانی کو چور نہیں سمجھتے!

خلاصۃ التحقیق: یہ روایت بے اصل، جھوٹی اور من گھڑت ہے جسے منظم یا غیرمنظم منصوبےسے جاہل اور عام مسلمانوں میں پھیلا دیا گیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا بالکل حرام ہے۔ ارشاد نبوی ہے:

«من یقل علی مالم اقل فلیتبوا مقعده من النار» جس شخص نے مجھ پر ایسی بات کہی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا (جہنم کی) آگ میں بنالے۔ (صحیح بخاری:۱۰۹)

اس ارشادِ نبوی کے باوجود بہت سے لوگ دن رات اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ جھوٹی روایات بنائیں یا پہلے سے موجود جھوٹی اور ضعیف روایات مسلمانوں میں پھیلادیں۔ کیا ہمارے لیے صحیح احادیث و روایات کافی نہیں ہیں؟

تنبیہ:       سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: «حبب الی من الدنیا: النساء والطیب وجعل قرة عینی فی الصلوة» مجھے دنیا میں سے عورتیں (بیویاں) اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ (سنن النسائی ۷؍۶۱ ح۳۳۹۱ وسندہ حسن، مسند احمد۳؍۲۸۵ وسندہ حسن وحسنہ الحافظ ابن حجر فی التلخیص الحبیر ۳؍۱۱۶ ح۴۳۵ اواوردہ الضیاء فی المختارۃ ۵؍۱۱۶ح۱۷۳۶)

دوسری روایت میں ہے: «حبب الی النساء والطیب وجعلت قرة عینی فی الصلوة» مجھے عورتیں (بیویاں) اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ (سنن النسائی ۷؍۶۲ ح۳۳۹۲ وسندہ حسن و صححہ الحاکم علی شرط مسلم ۲؍۱۶۰، ووافقہ الذہبی)

اس صحیح حدیث کا منبہات والی موضوع روایت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ نماز دنیا کی کوئی چیز ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص436

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ