سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(187) ہرمزان کا اسلام

  • 13708
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 2054

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ماہنامہ ’’شہادت‘‘ مارچ ۲۰۰۷ء کے صفحہ نمبر ۳۶ پر ’’وعدے کا پاس‘‘ کے عنوان سے ایک مشہور واقعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا گیا ہے:

’’ایران کا مشہور سپہ سالار ہرمزان قیدی بنا کر عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا۔ آپ نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جسے اس نے ٹھکرا دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اسے قتل کردیا جائے، کیونکہ اس نے اسلام کو بڑا نقصان پہنچایا تھا۔ جب اس کے قتل کی تیاری ہوگئی تو اس نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر کہا: میں پیاس سے نڈھال ہوں۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ مجھے قتل کرنے سے پہلے پینے کے لیے پانی دیا جائے؟ حکم ہوا کہ اسے پانی پلایا جائے۔ ہرمزان نے پانی کا پیالہ ہاتھ میں لیا اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا: یہ پانی جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے، اسے پینے تک آپ لوگ مجھے لوگ قتل تو نہیں کریں گے؟ فرمایا: ہاں! جب تک تم یہ پانی نہیں پیو گے تمہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس نے جلدی سے پانی کو نیچے گرا کر ضائع کردیا اور کہا: امیرالمومنین! دیکھئے آپ نے وعدہ کیا ہے اب اس کو پورا کیجیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہیں قتل کرنے سے فی الحال رک جاتے ہیں، میں تمہارے معاملے میں غوروفکر کروں گا۔ پھر جلاد کو حکم دیا کہ تلوار ہٹالو۔ اب اس نے بلند آواز میں پکارا: اشھد ان لا اله الا الله وان محمدا رسول الله

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اسلام لے آئے ہو، اچھا کیا، مگر بتاؤ جب میں نے تمھیں اسلام کی دعوت دی تھی تو اس وقت تم نے قبول کیوں نہ کیا؟ اس نے کہا: مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ اگر میں اس وقت اسلام قبول کروں گا تو میرے بارے میں کہا جائے گا کہ موت سے گھبرا کر اسلام لایا ہے۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان: ’’عقول فارس تزن الجبال‘‘

’’اہل فارس کی عقلیں پہاڑوں جیسی ہیں‘‘ سے مراد کہ یہ بڑے عقل مند و دانا ہیں، ان کی عقلیں عظیم الشان ہیں۔‘‘ اس واقعہ کی تحقیق وتخریج درکار ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الفاظ کے اختلاف کے ساتھ قصۂ مذکورہ بغیر کسی سند کے کئی کتابوں میں موجود ہے۔ مثلاً: طبقات ابن سعد (۵؍۸۹، ۹۰) المنتظم لابن الجوزی (۴؍۲۳۴، ۲۳۵ سنہ ۱۷ھ بحوالہ ابن سعد) تاریخ الاسلام للذہبی (۳؍۲۹۴، ۲۹۵ بحوالہ ابن سعد) الکامل لابن الاثیر اور تاریخ ابن خلدون وغیرہ۔

یہ قصہ سیف بن عمر التمیمی (ضعیف الحدیث فی الحدیث وضعیف الحدیث فی التاریخ) کی سند کے ساتھ تاریخ ابن جریر الطبری (۴؍۸۳۔ ۸۸ دوسرا نسخہ ۱؍۲۵۵۱۔ ۲۵۵۹) اور المنتظم (۴؍۲۳۲۔ ۲۳۵) میں مذکور ہے۔ سیف بن عمر کے ضعف اور کئی علتوں کی وجہ سے یہ قصہ مردود ہے۔

پانی اور پیاس کے ذکر کے بغیر یہ قصہ تاریخ خلیفہ بن خیاط میں موجود ہے۔

(روایت ہے کہ) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہرمزان سے فرمایا تھا: تو بات کر، کوئی حرج نہیں ہے۔ اس نے الفاظ سے استدلال کرکے اپنی جان بچالی۔ (تاریخ خلیفہ بن خیاط ص۱۴۷)

اس قصے کی سند حمید (الطویل) تک صحیح ہے۔ حمید نے اسے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صیغۂ عن کے ساتھ روایت کیا ہے۔

بعض علماء حمید الطویل کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے عن والی روایات کو بھی صحیح سمجھتے ہیں۔ حمید طبقۂ ثالثہ کے مدلس تھے اور راجح یہی ہے کہ ان کی غیرصحیحین میں ہر معنعن منفردوروایت ضعیف ہوتی ہے لہٰذا یہ قصہ بلحاظِ سند ضعیف ہے۔ واللہ اعلم

تنبیہ:       ہرمزان کو (بعد میں) عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے فوراً بعد مشتعل ہوکر شک کی بنا پر قتل کردیا تھا۔ (دیکھئے طبقات ابن سعد ۳؍۳۵۵، ۳۵۶وسندہ صحیح)

ہرمزان کے قبولِ اسلام کے لیے دیکھئے صحیح بخاری (۳۱۵۹)

’’عقول فارس تزن الجبال‘‘ وغیرہ والا قصہ بے اصل ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص434

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ