سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(181) صحیح بخاری کی دو حدیثیں اور ان کا دفاع

  • 13702
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-19
  • مشاہدات : 6722

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل روایات کو ضعیف قرار دیا ہے۔ آپ اپنی تحقیق کی روشنی میں جواب ارشاد فرما کر آگاہ فرمائیں۔

(۱)عن ابی هریرة رضی الله عنه عن النبی صلی الله علیه وسلم قال: قال الله ثلاثة انا خصمهم یوم القیامة رجل اعطی بی ثم غدر ورجل باع حرا فاکل ثمنه ورجل ستاجر اجیرا فاستوفی منه ولم یعطه اجره۔ (اخرجه البخاری۱؍۳۰۲، واحمد۲؍۳۵۸)

اس حدیث کے ایک راوی یحییٰ بن سلیم کے متعلق موصوف کہتے ہیں کہ یہ قیاس کے خلاف حدیثیں گھڑتا تھا۔ (!!)

(۲)عن علی قال سمعت رسول الله صلی الله علیه وسلم یقول: یخرج قوم فی آخر الزمان احداث الاسنان سفهاء الأحلام یقولون من خیر قول البریة لا یجاوز ایمانهم حناجرهم یمرقون من الدین کمایمرق السهم من الرمیۃ فاینما لقیتموهم فاقتلوهم فان فی قتلهم اجرا لمن قتلهم یوم القیامة۔ (بخاری۔ کتاب الانبیاء)

شیخ البانی رحمہ اللہ اس روایت کو منکر کہتے ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)پہلی حدیث کا ترجمہ درج ذیل ہے:

اللہ (تعالیٰ) نے فرمایا: میں تین قسم کے آدمیوں کا قیامت کے دن دشمن ہوں گا (ایک) وہ آدمی جس نے میرے نام پر عہدوپیمان کیا پھر غداری کرتے ہوئے اسے توڑ دیا (دوسرا) وہ آدمی جس نے کسی آزاد شخص کو غلام بنا کر بیچا اور اس کی قیمت کھالی (تیسرا) وہ آدمی جس نے کسی مزدور کو اجرت پر رکھا، اس سے پورا کام لیا لیکن مزدوری نہ دی۔ (صحیح بخاری:۲۲۲۷، ۲۲۷۰)

اسے احمد بن حنبل (۲؍۳۵۸ ح۸۶۹۲) ابن الجارود (۵۷۹) ابن ماجہ (۲۴۴۲) اور ابن حبان (الاحسان:۷۶۹۵) وغیرہم نے یحییٰ بن سلیم الطائفی عن اسماعیل بن امیۃ عن سعید المقبری عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت کیا ہے۔

اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔ سعید بن ابی سعید المقبری اور ان کے والد دونوں ثقہ ہیں۔ (تقریب التہذیب:۲۳۲۱، ۵۶۷۶)

یحییٰ بن سلیم الطائفی کے بارے میں جرح و تعدیل کا جائزہ درج ذیل ہے:

یحییٰ بن سلیم پر جرح

(۱)احمد بن حنبل: واللہ ان حدیثه یعنی فیه شی، وکانه لم یحمده۔۔۔ کان قد اتقن حدیث ابن خثیم۔۔۔ الخ

(۲)ابوحاتم الرازی: شیخ صالح محله الصدق ولم یکن بالحافظ یکتب حدیثه ولا یحتج به۔

(۳)النسائی: لیس بالقوی۔۔۔ لیس به باس وهو منکر الحدیث عن عبیدالله بن عمر۔

(۴)ابواحمدالحاکم: لیس بالحافظ عندهم۔

(۵)الدارقطنی: سنی الحفظ۔

(۶)العقیلی: ذکرہ فی کتاب الضعفاء [۴؍۴۰۶] ونقل بسند صحیح عن احمد قال : وقعت علی ابن سلیم وهو یحدث عن عبیدالله احادیث منا کیر فترکته ولم احمل عنه الاحدیثا۔

(۷)ابن حجر: صدوق سئی الحفظ [وفی تحریر تقریب التہذیب (۷۵۶۳): بل صدوق حسن الحدیث، ضعیف فی روایتہ عن عبیداللہ بن عمر]

(۸)الساجی: صدوق یھم فی الحدیث واخطافی احادیث رواھا [عن] عبیداللہ بن عمر۔ (تہذیب التہذیب۱۱؍۱۹۹)

(۹)البیہقی: کثیر الوھم سئی الحفظ (السنن الکبریٰ ۹؍۲۵۶)

یحییٰ بن سلیم کی تعدیل

۱۔ یحییٰ بن معین قال: ثقۃ (تاریخ ابن معین، روایۃ الدوری:۲۲۹)

۲۔ ابن سعد نے کہا: وکان ثقۃ کثیر الحدیث (الطبقات ۵؍۵۰۰)

۳۔ العجلی نے کہا: ثقۃ (الثقات؍التاریخ ۱۹۸۰)

۴۔ ابن شاہین، ذکرہ فی الثقات [۱۵۹۱]

۵۔ ابن حبان، ذکرہ فی الثقات [۷؍۶۱۵] ولم یقل شیئا ونقل المزی عن ابن حبان وقال: یخطئی [تہذیب الکمال۲۰؍۱۱۷]

۶۔النسائی قال: لیس بہ باس۔۔۔ الخ، نسائی نے یحییٰ بن سلیم کی حدیث پر سکوت کیا [ح۸۷،۱۱۴] اور کہا: ثقۃ [تہذیب الکمال ۲۰؍۱۱۴] لعلہ ارد ھذا وغیرہ۔

۷۔ یعقوب بن سفیان نے کہا: سنی رجل صالح وکتابه لاباس بہ واذا حدث من کتابه فحدیثه حسن واذا حدث حفظا فیعرف وینکر۔ (کتاب المعرفۃ والتاریخ ۳؍۵۱)

۸۔ البخاری: احتج بہ فی صحیحہ۔ [ح۲۲۲۷، ۲۲۷۰]

۹۔ مسلم بن الحجاج: احتج بہ فی صحیحہ۔ [۲۸؍۲۲۹۴ودارالسلام:۵۹۷۳]

۱۰۔ ابن عدی قال: ولیحییٰ بن سلیم عن اسماعیل بن امیۃ وعبیداللہ بن عمر وابن خثیم وسائر مشائخہ احادیث صالحۃ وافرادات وغرائب یتفرد بھا عنھم واحادیثہ مقاربۃ وھو صدوق لاباس بہ۔ [الکامل ۷؍۲۶۷۵دوسرا نسخہ ۹؍۶۴]

۱۱۔ ابن الجارود: احتج بہ فی صحیحہ۔ (۵۷۹)

۱۲۔ الساجی: صدوق یھم فی الحدیث۔۔۔ الخ دیکھئے اقوالِ جرح: ۸

۱۳۔ الذہبی: ثقہ۔ (الکاشف ۳؍۲۲۶ ت ۶۲۹۰)

۱۴۔ الحاکم: صحح لہ فی المستدرک (۱؍۳۰۱ح۱۱۲۱)

۱۵۔ الترمذی: حسن لہ فی سننہ۔ (ح۵۴۴)

۱۶۔ ابن خزیمہ: صحح له فی صحیحه بروایته وسکوته علیه۔ (ح۱۵۰)

۱۷۔ البوصیری، قال فی حدیثہ: ھذا اسناد حسن رجالہ ثقات۔ (ابن ماجہ مع زوائدہ: ۱۴۴)

۱۸۔ البغوی، قال فی حدیثہ: ھذا حدیث صحیح۔ (شرح السنۃ ۸؍۲۶۶ح ۲۱۸۶)

۱۹۔ الزیلعی، قال: فھو ثقۃ۔ (نصب الرایۃ ۴؍۲۰۳)

۲۰۔ واشار المنذری الی تقویۃ حدیثہ۔ (انظر الترغیب والترہیب ۳؍۲۳ ح۲۸۰۴، ۳؍۳۳ ح۲۸۳۷)

۲۱۔ واشار الھیثمی الی تقویہ حدیثہ، انظر مجمع الزوائد (۳؍۲۹۹)

۲۲۔ الاسماعیلی روی حدیث البخاری فی مستخرجہ، انظر فتح الباری (۴؍۴۱۸ح۲۲۲۷)

۲۳۔ ابن حجر، مال الی تقویتہ، انظر فتح الباری (۴؍۴۱۸)

۲۴۔ عینی حنفی نے یحییٰ بن سلیم کی توثیق نقل کی اور جرح نقل نہیں کی۔

دیکھئے شرح سنن ابی داود (۱؍۳۳۱للعینی)

۲۵۔ ابن القطان الفاسی نے کہا: ومن ضعفه لم یات بحجة وھو صدوق عند الجمیع (بیان الوہم والا یہام ۲؍۳۵۵ ح۳۵۳)

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ یحییٰ بن سلیم الطائفی جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق اور صحیح الحدیث و حسن الحدیث ہیں۔ بعض علماء نے ان پر ’’یھم‘‘ و ’’یخطی‘‘ و ’’اخطا‘‘ وغیرہ جرح کی ہے جو کہ حسن الحدیث کے منافی نہیں ہے۔ بعض نے ان پر سی الحفظ، کثیر الخطاء و منکر الحدیث وغیرہ جرح کی ہے جس کا تعلق یحییٰ بن سلیم کی عن عبیداللہ بن عمر والی روایت سے ہے۔ احمد بن حنبل نے عبداللہ بن عثمان بن خثیم سے یحییٰ مذکور کو متقن (یعنی ثقہ) قرار دیا ہے، امام بخاری نے فرمایا: ’’ما حدث الحمیدی عن یحییٰ بن سلیم فھو صحیح‘‘ یعنی: حمیدی نے جو روایت یحییٰ بن سلیم سے بیان کی ہے وہ صحیح ہے۔ (تہذیب التہذیب ۱۱؍۲۲۷)

خلاصۃ التحقیق: یحییٰ بن سلیم الطائفی کی روایات کے چار درجے ہیں:

(۱)وہ جب ابن خثیم سے روایت کریں ت متقن (ثقہ) ہیں۔

(۲)ان سے جب (عبداللہ بن الزبیر) الحمیدی روایت کریں تو وہ صحیح الحدیث (ثقہ) ہیں۔

(۳)عبیداللہ بن عمر اور ابن خثیم کے علاوہ تمام راویوں سے وہ روایت کریں تو حسن الحدیث ہیں۔

(۴)عبیداللہ بن عمر سے ان کی روایت ضعیف ہے۔

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی مسئولہ حدیث بلحاظ سند واصولِ حدیث حسن لذاتہ ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کا اس پر جرح کرنا غلط اور مردود ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کا یہ قول بہت عجیب و غریب ہے کہ ’’حسن او قریب منہ‘‘ (ارواء الغلیل ۵؍۳۰۸ ح۱۴۷۹) اور اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب وہ استنباط ہے جو شیخ البانی رحمہ اللہ نے امام بخاری کے قول: ’’ماحدث الحمیدی عن یحییٰ بن سلیم فھو صحیح‘‘ سے نکالا ہے کہ اگر غیر حمیدی ان (یحییٰ بن سلیم) سے روایت کریں تو (امام بخاری کے نزدیک) ضعیف ہے۔

اسے مفہوم مخالف کہتے ہیں۔ دلیلِ صریح کے مقابلے میں مفہوم مخالف اور مبہم وغیر واضح دلائل سب مردود ہوتے ہیں۔ امام بخاری نے یحییٰ بن سلیم سے صحیح بخاری کے اصول میں روایت کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ان کے نزدیک ثقہ ہیں لہٰذا امام بخاری کے قول کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ حمیدی کی یحییٰ بن سلیم سے روایت مطلقاً صحیح ہوتی ہے چاہے وہ عبیداللہ بن عمر سے روایت کریں یا نہ کریں اسی طرح وہ اسماعیل بن امیہ سے امام بخاری کے نزدیک صحیح الحدیث ہیں اور جب دوسروں سے روایت کریں تو حسن الحدیث ہیں۔ اس مفہوم و تطبیق سے جمہور محدثین اور امام بخاری کے اقوال کے درمیان تطبیق و توفیق بھی ہوجاتی ہے اور اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری کی حدیث بھی ضعیف قرار نہیں پاتی۔ وھذا ھو الصواب والحمدللہ رب العالمین

تنبیہ:    یہ قول کہ ’’قیاس کے خلاف حدیثیں گھڑتا تھا‘‘ مجھے یحییٰ بن سلیم کے بارے میں کہیں نہیں ملا۔ مختصر صحیح البخاری (۲؍۳۷، ۷۴) میں شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بارے میں توقف کیا ہے۔!

(۲)دوسری حدیث کا ترجمہ درج ذیل ہے:

آخری زمانہ میں ایک ایسی قوم نکلے گی جو نوعمر بے وقوف ہوں گے۔ لوگوں کے اقوال میں سے بہترین قول کہیں گے (یعنی قرآن پڑھیں گے) ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشان سے نکل جاتا ہے۔ پس تم انہیں جہاں پاؤ ان سے قتال کرو کیونکہ قیامت کے دن ان کے قتل کا اجروثواب ملے گا۔ (صحیح البخاری:۶۹۳۰، ۵۰۵۷، ۳۶۱۱ و صحیح مسلم ۱۵۴؍۱۰۶۶ ودارالسلام: ۲۴۶۲ و سنن ابی داود: ۴۷۶۷ و سنن النسائی ۷؍۱۱۹ ح۴۱۰۷)

اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے۔ سوید بن غفلہ، خیثمہ بن عبدالرحمٰن بن ابی سبرہ الجعفی اور سلیمان الاعمش سب ثقہ راوی ہیں۔ اعمش نے سماع کی تصریح کردی ہے، لہٰذا تدلیس کا اعتراض غلط ہے۔

تنبیہ: صحیح بخاری و صحیح مسلم و سنن ابی داود و سنن النسائی و مسند احمد (۱؍۸۱ ح۶۱۶، ۱؍۱۱۳ ح ۹۱۲) وغیرہ میں ’’من خیر قول البریہ‘‘ ہے۔ یہ جملہ صحیح ہے منکر نہیں ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس جملے والے متن کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ (صحیح الجامع: ۳۶۵۴)

ارواء الغلیل کی ایک عبارت (۸؍۱۲۰۔۱۲۳ ح۲۴۷۰) میں ایک دوسرے لفظ ’’من قول خیر البریۃ‘‘ کے منکر ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ واللہ اعلم

خلاصۃ التحقیق: صحیح بخاری و صحیح مسلم کی مسئولہ حدیث بالکل صحیح ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح ہی قرار دیا ہے۔ نیز دیکھئے مختصر صحیح البخاری (۴؍۲۳۹)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص415

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ