سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(69) جادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹنے والی روایت

  • 13590
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2010

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ایسی کوئی صحیح حدیث موجود ہے جس میں قتال کو جہادف اصغر اور خواہشات کے خلاف جہاد کو جہادِ اکبر کہا گیا ہو؟ براہِ مہربانی واضح فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث: ’’قدمتم خیر مقدم و قدمتم من الجهاد الاصغر الی الجهاد الاکبر‘‘ (تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آگئے ہو) کی میرے علم کے مطابق دو ہی سندیں ہیں:

۱:             یحیی بن العلاء قال: حدثنا لیث عن عطاء بن ابی رباح عن جابر قال: قدم النبی صلی الله علیه وسلم من غزاة له فقال لهم……… الخ (تاریخ بغداد ۵۲۳/۱۳، ۵۲۴ ت۳۷۴۵ ومن طریقہ الحافظ ابن الجوزی فی ذم الھوی ص۳۸، الباب الثالث فی ذکر مجاهدة النفس و محاسبتها و توبیخها)

یحییٰ بن العلاء سخت مجروح راوی ہے۔ امام نسائی نے کہا: ’’متروک الحدیث‘‘ (کتاب الضعفاء و المتروکین للنسائی: ۶۲۷)

حافظ ابن حجر نے کہا: ’’رمی بالوضع‘‘ (تقریب التہذیب ۹۷/۴، رقم: ۷۶۱۸)

یعنی محدثین نے اسے وضع حدیث کا مرتکب قرار دیا ہے۔ ایسے راوی کی روایت مردود ہوتی ہے۔ یحییٰ بن العلاء تک خطیب کی سند بھی مردود ہے۔ یحییٰ کا استاد لیث بن ابی سلیم جمہور محدثین کے نزدیک ضیف ہے۔ حافظ ہیثمی نے اسے مدلس کہا ہے۔ (مجمع الزوائد ۸۳/۱ باب فی مثل المومن)

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ’’صدوق اختلط اخیرا ولم یتمیز حدیثه فترك‘‘

وہ سچا ہے، آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوا اور اس کی حدیث میں (اختلاط سے پہلے اور بعد کا) فرق نہ ہوسکا لہٰذا وہ متروک قرار دیا گیا۔ (تقریب التہذیب: ۵۶۸۵)

خلاصہ یہ کہ یہ روایت باطل ہے۔

تنبیہ:

تاریخ بغداد میں غلطی سے ’’یحیی بن ابی العلاء‘‘ چھپ گیا ہے جب کہ صحیح ’’یحیی بن العلاء‘‘ ہے جیسا کہ ذم الھوی لابن الجوزی میں لکھا ہوا ہے۔

۲۔            امام بیہقی نے فرمایا: ’’اخبرنا علی بن احمد بن عبدان: انبا احمد بن عبید ثنا تمتام: ثنا عیسی بن ابراهیم: ثنا یحیی بن یعلی عن لیث عن عطاء عن جابر قاال: قدم علی رسول الله صلی الله علیه وسلم قوم غزاة فقال صلی الله علیه وسلم:«قدمتم خیر مقدم، من جهاد الاصغر الی جهاد الاکبر» قیل: و ما جهاد الاکبر؟ قال: «مجاهدة العبدهواه» و هذا اسناد فیه ضعف‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مجاہدین آئے تو آپ نے انھیں فرمایا: تم خیر سے لوٹے ہو، جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف واپس آئے ہو۔ کہا گیا کہ جہاد اکبر کیا ہے؟ فرمایا: بندے کا اپنی خواہش سے جہاد (اور مقابلہ) کرنا، (امام بیہقی نے کہا:)  اس کی سند میں کمزوری ہے۔ (کتاب الزھد الکبیر ص۱۶۵ حدیث: ۳۷۳)

اسے ابوبکر الشافعی نے ’’الفوائد المنتقاۃ‘‘ (۱/۸۳/۱۳) میں عیسی بن ابراھیم البر کی قال: نایحیی بن یعلی کی سند سے روایت کیا ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ ج۵ ص۴۸۰ ح۲۴۶۰)

تمتام اور عیسی بن ابراہیم پر جرح مردود ہے۔ دونوں کی روایت حسن کے درجے سے نہیں گرتی۔ یحییٰ بن یعلی سے مراد ابو المحیاۃ الکوفی التیمی ہے۔

دیکھئے تہذیب الکمال للمزی (۲۶۳/۲۰ وذکر فی شیوخہ لیث بن ابی سلیم)

اس سند کا راوی لیث بن ابی سلیم ضعیف و مدلس ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے لہٰذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ خلاصہ یہ کہ جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹنے والی روایت ضعیف ہے لہٰذا قرآن اور احادیث صحیحہ ک مقابلے میں اس سے استدلال کرنا غلط ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص208

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ