سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(35) لفظ صاحب مولیٰ اور حضرت کامعنی اور مفہوم

  • 13508
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 5538

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جناب مولانا صاحب درج ذیل چارسوالوں کے جوابات مطلوب ہیں: 1۔ لفظ صاحب کالغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہے؟2۔ لفاظ مولانا کا لغوی معنی اور اصطلاحی معنی کیا ہے؟ 3۔ لفظ حضرت کا لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہے؟4۔ بوقت ذبح حضرت اسماعیل﷤ کی عمرکتنی تھی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 سوال نمبر(1) لفظ صاحب اسم فاعل باب صحب یصحب سے ہے۔ اس کا معنی ساتھی، ساتھ زندگی گزارنے والا، مالک، گورنر، وزیر ہے۔اس کی جمع صحب ہے اور اصحاب۔ توگویا صاحب کا معنی جناب اور محترم ،آقا اور مالک کے معنی میں آتا ہے۔ جس طرح  لفظ محترم اور آقا کا شرعاً استعمال جائز ہے اوراسی طرح لفظ صاحب کا استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بطور لاحقہ اور سابقہ دونوں طرح استعمال میں متعارف ہے ۔ جیسے بطور سابقہ صاحب المعالی۔ صاحب السمو۔ آج کل اس کا استعمال عام عروج ہے اور بطور لاحقہ الشیخ صاحب ، استاد صاحب وغیرہ عام متعارف ہے۔

اس کا استعمال بطور آقا اور بااختیار شخصیت کےمعنی میں صحیح البخاری میں دو مقام پر موجود ہے۔1۔ قال رسول اللہﷺ صلو ا علی صاحبکم۔ یہاں ساتھی اور دوست اور دینی بھائی کے معنی ہیں۔

2۔ جب عمرۃ القضا میں مکہ مکرمہ میں مدت اقامت تین دن پوری ہوگئی تو مشرکین مکہ نے حضرت علی﷜ سے کہا: قل لصاحبک اخرج عنا الحدیث۔ اس مقام پر لفظ صاحب آقا اور بااختیار شخصیت، گورنر، قائد اور سالار کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

لفاظ مولانا میں لفظ مولیٰ مضاف اور ناضمیر متکلم جمع مع الغیر مضاف الیہ۔ بمعنی مرکب اضافی ہے اور مولیٰ کا لفظ متعدد معانی  کا حامل ہے ۔ جیسے مولیٰ یعنی مالک، آقا، سردار، آزادکرنے والا، آزاد شدہ، انعام دینے والا، وہ جس کو انعام دیا جائے ، محبت کرنے والا، ساتھی، حلیف، پڑوسی، مہمان، شریک،بیٹا، چچا کا بیٹا، بھانجا، داماد، رشتہ دار، ولی اور تابع۔ملاحظہ ہو کبت لغات قاموس، تحفۃ الاحوذی اور تنقیح الروات، مشکوۃ وغیرہ اور اس کا استعمال بلاشبہ درست اور صحیح ہے۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے حضرت زیدبن حارثہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: انت اخونا ومولنا

اور حضرت علی﷜ کے بارہ میں حدیث: من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ زبان زد عام ہے۔ لہذا مشکوۃ ملاحظہ فرمائیں نیز جامع ترمذی۔ پس اس کا اطلاق صاحب علم و فضل ، ذی وقار شخصیت پر بلاشبہ جائز ہے۔

سوال نمبر2: حضرت کا معنی:موجودگی ، نزدیکی اور حضرت کا لفظ اس ذی مرتبہ آدمی کے لیے مستعمل ہوتا ہے جو مربع خلائق ہو۔ مثلاً کہتے ہیں: الحضرۃ العالی تامر بکذا۔ حضرت عالی ایسا حکم دیتے ہیں۔ (المنجد ص217) اور مصباح اللغات میں ہے کہ لفظ حضرت کا اطلاق ایسے بڑے آدمی پر ہوتا ہے جس کے پاس لوگ جمع ہوتے ہیں، جیسے الحضرۃ العالية تامر بكذا۔ کہ جناب عالی فلاں فلاں کام کا حکم دیتےہیں۔ ان دونوں  لغوی حوالہ جات سے متبادرالی الذہن مفہوم یہ ہے کہ حضرت عالی اور جناب عالی مترادف المعنی ہیں ، لہذا ادب و احترام کے اظہار کے لیے اس کا استعمال روز مرہ کا معمول  بن چکا ہے۔ لہذا اس اعتبار سے اس کے استعمال میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اس کا معنی حاضر ناظ کا لیا جائے یا اس اعتقادی معنی کا استدلال کیا جائے جیسا کہ قبوریین کا عقیدہ ہے تو پھر ہرگز جائز نہیں۔

سوال نمبر:3۔ قرآن میں ہے ، فلما بلغ معه السعى...... الاية

اس  کی تفسیر میں مفسر جلال الدین المحلی، الشیخ ابوبکر الجزائری جیسے نامور مفسر دونوں بیک زبان لکھتے ہیں کہ بوقت ذبح حضرت اسماعیل علیه وعليه نبينا الصلوة والسلام کی عمر سات برس یا زیادہ 13 برس تھی۔ ملاحظہ ہو اصل عبارت:

اى ان يسعى معه اى يعينه قيل بلغ سبع سنين وقيل ثلاثة عشرسنة (ص377)

سوال نمبر4: سورۃ الصافات اوربیت اللہ شریف کی تعمیر یا تجدید کےوقت حضرت اسماعیل﷤ کی عمر شریف20برس کے لگ بھگ تھی۔ملاحظہ ہوکتاب تاریخ بیت اللہ ص88، بحوالہ اخبارِ مکہ ۔ تفسیر روح المعانی میں بالجزم بوقت ذبح حضرت  اسماعیل ذبیح اللہ کی قربانی تعمیر کعبہ سے سات برس، مگر جلال محلی اور محمود آلوسی ک مطابق 13برس پہلے وقوف پذیر ہوچکی تھی۔ بالفاظ دیگر تعمیر کعبۃ اللہ سے قبل حضرت اسماعیل ذبیح اللہ کے شرف سے متشرف ہوچکے تھے۔ اس مختصر سے جواب ہی کو سردست کافی سمجھیں کیونکہ سیرۃ انبیاء علیہم السلام پرلکھنےوالوں نے ان غیر ضروری سوالات پر اپنی عمروں کے قیمتی لمحات کو ضائع کرنا زیادہ مناسب خیال نہیں کیا یا پھر راقم الحروف اپنی علمی فرومائیگی اور مطالعہ و تحقیق کےمیدان میں کم نظری کی وجہ سے تلاش وبسیار  کے باوصف ایسی کتاب تک رسائی حاصل نہ کرسکا ، جس میں اس موضوع پر مفصل اور مدلل قطعی داد تحقیق دی گئی ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص224

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ