سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(33) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالی دینا

  • 13506
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 6530

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا صحابہ کرام رضوان اللہ  علیہم اجمعین میں سے کسی صحابی کو گالی دینے سے انسان کافر ہوجاتا ہے؟ جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ کسی چھوٹے سے چھوٹے صحابی کے اسلام اور مناقب ومحاسن اور اس کی اسلامی مساعی کا انکار نہ صرف اکبرالکبائر گناہ ہے، بلکہ سنی اور شیعہ مجتہدین کے مطابق صحابہ کو سب وشتم کرنا کبیرہ گناہ اور موجب لعنت ہے۔ پہلے چند ایک سنی احادیث اور اقوال پیش خدمت ہیں:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنْفَقَ أَحَدُكُمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ ‏"‏ ‏.‏

’’ حضرت ابوسعید خدری ﷜ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگو! میرے صحابہ کو گالی نہ دینا( کہ ان کامقام تو اتنا بلند ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرے تو صحابہ کے آدھے مد کے برابر بھی نہ ہوگا۔‘‘

صحابہ کے ساتھ بغض رکھنا اور دراصل اللہ اور رسول اللہﷺ کے ساتھ بغض کی فرع ہے:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’ میرے بعد صحابہ کو اپنی تنقید کا نشانہ نہ بنانا،جو ان سے محبت کرتاہے کہ اسے مجھ سے محبت ہے جو ان سے بغض رکھتا ہے تو اس لیے کہ اس کو میری ذات کے ساتھ بغض ہے، جس نے صحابہ کو ایذا پہنچائی تو اس نے مجھے ایذا دی ، جس نے مجھے ایذا دی تو اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا پہنچائی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی تو قریب ہے کہ اللہ تعالی اس سے نپٹ لے۔‘‘

صحابہ کو گالی دینا باعث لعنت ہے:

عن عطاء قال قال رسول اللهﷺ لا تسبوا اصحابی فمن سبهم فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ۔هذا مرسل ورجاله ثقات

’’ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہ کو گالی مت دو اور جس کسی نے ان کا گالی دی تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔‘‘

تمام صحابہ کرام﷢ نہ صرف افضل امت ہیں بلکہ اللہ علیم وخبیر نے اپنے نبیﷺ کی صحبت ونصرت کےلیے ان کا خود انتخاب فرمایا۔

حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ صحابہ کے شرف اور مناقب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: مَنْ كَانَ مُسْتَنًّا فليسن بِمَنْ قَدْ مَاتَ فَإِنَّ الْحَيَّ لَا تُؤْمَنُ عَلَيْهِ الْفِتْنَةُ. أُولَئِكَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا أَفْضَلَ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبَرَّهَا قُلُوبًا وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا اخْتَارَهُمُ اللَّهُ لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ وَلِإِقَامَةِ دِينِهِ [ص:68] فَاعْرِفُوا لَهُمْ فَضْلَهُمْ وَاتَّبِعُوهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ وَتَمَسَّكُوا بِمَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ أَخْلَاقِهِمْ وَسِيَرِهِمْ فَإِنَّهُمْ كَانُوا عَلَى الْهَدْيِ الْمُسْتَقِيمِ

حضرت ابن  مسعود﷜ صحابہ سے بعد آنے والوں کو وصیت فرماتے ہیں کہ تم کو فوت شدہ صحابہ کی سنت اور طریقہ کی اقتدا کرنی چاہیے،کیونکہ کوئی زندہ انسان فتنہ کی زد سے باہر نہیں کہ رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ساری امت سے افضل لوگ تھے جن کے دل ایمان و اخلاص اور تقویٰ سے معمور تھے۔ علم و عمل کی گہرائی میں سب سے آگے تھے اور تکلف نام کی چیز سے ناآشنا تھے۔ یہ وہ مبارک شخصیات ہیں جن کو اللہ تعالی نےاپنےنبی کی نصرت اور اقامت دین کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ پس آپ ان کی فضیلت کو پہنچانو اور ان کے علم  وعمل کی اتباع کرو اور ممکن حدتک ان کے اخلاق عالیہ اور پاکیزہ سیرتوں کو اپناؤ، کیونکہ وہ ہر صورت رسول اللہﷺ کے سچے اور کھرے پیرو کار تھے۔

صحابہ کرام﷢ کا گستاخ زندیق ہے:

امام ابوزرعہ رازی تصریح فرماتے ہیں:

«إِذَا رَأَيْتَ الرَّجُلَ يَنْتَقِصُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَّ فَاعْلَمْ أَنَّهُ زِنْدِيقٌ , وَذَلِكَ أَنَّ الرَّسُولَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَّ عِنْدَنَا حَقٌّ , وَالْقُرْآنَ حَقٌّ , وَإِنَّمَا أَدَّى إِلَيْنَا هَذَا الْقُرْآنَ وَالسُّنَنَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَّ , وَإِنَّمَا يُرِيدُونَ أَنْ يُجَرِّحُوا شُهُودَنَا لِيُبْطِلُوا الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ , وَالْجَرْحُ بِهِمْ أَوْلَى وَهُمْ زَنَادِقَةٌ»

کہ جب آپ کسی شخص کو کسی ایک صحابی رسول کی تنقیص ( اعتراض اور توہین) کرتے ہوئے دیکھے تو آپ یقین کرلیں کہ وہ بدبخت زندیق( بے دین) ہے کیونکہ ہمارے نزدیک رسول اللہﷺ حق ہیں اور قرآن بھی حق ہے اور صحابہ کرام﷢ ہی نے قرآن وسنت کو ہم تک پہنچایا ہے (اور صحابہ ہی ان دونوں کے شاہد عدل ہیں) اور یہ زندیق لوگ اپنے ناپاک ارادوں سے ہمارے گواہوں( صحابہ) پرجرح کرکے کتاب وسنت کو باطل ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود جرح کے بالاولی مستحق ہیں، یہ لوگ  بلاشبہ زندیق ( بے ایمان) ہیں۔

صحابہ ﷢ کی توقیر اور تعظیم فرض ہے:

وكلهم عدل إمام فاضل رضي فرض علينا توقيرهم وتعظيمهم وأن نستغفر لهم ونحبهم وتمرة يتصدق بها أحدهم أفضل من صدقة أحدنا بما يملك وجلسة من الواحد منهم مع النبي صلى الله عليه وسلم أفضل من عبادة أحدنا دهره كله

ہر ایک صحابی عادل(سچا اور متبع سنت) امت کا نام، صاحب فضیلت اور اللہ تعالی کا پسندیدہ تھا، ہم پر تمام صحابہ ﷢ کی توقیر اور تعظیم فرض ہے اور یہ بھی فرض ہے کہ ہم ان کےلیے استغفار کریں اور ان کے ساتھ محبت رکھیں، ان میں سے کسی ایک صحابی کی ایک صدقہ کی کھجور ہم میں سے کسی ایک کی عمر بھی کی سخاوت سے افضل ہے۔

ان احادیث شریفہ سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام﷢ کے متعلق دل میں کدورت اور بغض وعناد رکھنا اکبر الکبائر گناہ، پرلے درجہ کی بدنصیبی اور اکتساب لعنت ہے۔ یہ عام صحابہ کرام﷢ کی عظمت ، شان اور جلالت قدر کا بیان ہے ، رہے حضرت ابوبکرصدیق﷜ تو ان کی عظمت و جلالت کا تو عالم اس سے بھی کہیں زیادہ بالاتر ہے، حتی کہ ان سے محبت و عقیدت مومن کے ایمان کا ثبوت اور ان سے بغض و عناد اور ایمان کا فقدان ہے۔

حضرت علی ﷜ تصریح فرماتے ہیں:

أَلَا أُخْبِرُكَ بِخَيْرِ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ؟ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، لَا يَجْتَمِعُ حُبِّي وَبُغْضُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فِي قَلْبِ مُؤْمِنٍ»

’’ کہ میری محبت اور ابوبکر اور عمر سے دشمنی ایک ساتھ کسی ایماندار کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی ابوبکر اور عمر کے ساتھ دشمنی بے ایمان ہونے کا واضح ثبوت ہے۔‘‘

عن انس مرفوعا حب ابی بکر و عمر ایمان وبغضهما كفر

’’ کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی محبت عین ایمان اور ان کے ساتھ بغض و عداوت سراسر کفر ہے۔‘‘

قَالَ بعض العلماء: لو قَالَ قائل: إن جميع الصحابة، ما عدا أبا بَكْر ليست، لَهُ صحبة لم يكفر، ولو قَالَ: إن أبا بَكْر لم يكن صاحب رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كفر، فإن القرآن العزيز قَدْ نطق أَنَّهُ صاحبه.

بعض علمائے کرام نے یہ کہا ہے کہ اگر کوئی شخص حضرت ابوبکر ﷜ کو چھوڑ کر دوسرے تمام صحابہ ﷢ کے لیے شرف صحبت کا انکار کرے تو وہ کافر نہیں ہوگا ، اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ ابوبکر صاحب رسول ﷺ نہیں، تویہ شخص کافرہوگا کیونکہ قرآن عزیز نے  واشگاف الفاظ میں ان کو صاحب رسول ﷺ کہا ہے، جیساکہ سورۃ التوبۃ میں نص جلی ہے:

﴿إِذ يَقولُ لِصـٰحِبِهِ لا تَحزَن إِنَّ اللَّهَ مَعَنا﴿٤٠﴾... سورة التوبة

’’ جب وہ ( رسول اللہﷺ) اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا تو غم نہ کھا بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘

چوں میگفت پیغمبر یار خودرا

اندوہ مخوران اللہ معنا

(4)طبقات ابن سعد حصہ 3 میں مسلم بن بطین یوں گنگناتے ہیں:

انا لعاتب لا ابالك عصيبة

علقوا الفرى وبروا من الصديق

اے پدر مردہ ہم اس جماعت کو ملامت کرتے ہیں جنہوں نے کذب و افتراء کودل میں جگہ دی اور حضرت صدیق﷜ سے بیزار ہوگئے۔

(5)جناب جعفر صادق تصریح فرماتے ہیں:

حدثنا سفيان عن جعفر انه قال حب ابى بكر وعمر ايمان وبغضهما كفر

یعنی ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان اور ان کے متعلق دل میں بغض رکھنا کفر ہے، نیز یہ حوالہ بستان صحابہ ص28 پر بھی موجود ہے۔

(6) جناب جعفر صادق فرماتے ہیں کہ جو شخص ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت کی منکر ہے ، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔

(7) رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کسی نے حضرت ابوبکر وحضرت عمر رضی اللہ عنہما سےبغض رکھا وہ منافق ہے۔

گستاخ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انجام بد:

ایک بدنصیب حضرات شیخین کو گالیاں بکتا تھا اور لوگوں کےمنع کرنے کے باوجود وہ جب باز نہ آیا تو وہ رفع حاجت کے لیے نکلا تو بھڑوں نے اس کو گھیر لیا، اس نے امداد کے لیے پکارا، لوگ جب اس کی مدد کو نکلنے تو بھڑوں نے امداد کرنےوالوں پر بھی حملہ کردیا ۔ لہذا لوگو ں نے اس کی مدد ترک کردی اور بھڑوں نے اس کو کاٹ کھایا۔

خلاصہ یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق﷜ سے بغض وعداوت رکھنے والا پرلے درجہ کا بدنصیب اور ایمان سےمحروم اور اپنے اس باطل عقیدہ کی بنا پر اسلام سے خارج اور بدانجام ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص216

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ