سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) گستاخ رسول ﷺ کی شرعی سزا کے متعلق چندسوال اور جواب

  • 13495
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 3206

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سوال 1: ڈنمارک اور ناروے کے حکمرانوں نے کہا ہے کہ قرآن قتل انسانی سے منع کرتا ہے اور لہٰذا گستاخانہ خاکوں کے کارٹونسٹوں کے قتل کامطالبہ قرآن کے احکام سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ کیا ان حکمرانوں کا یہ موقف صحیح ہے ؟

سوال  2: کیا رسو ل اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین ﷢ نے کسی گستاخ رسول کو قتل کروایا ہے ؟

سوال 3: مسلمانان عالم تحریک تحفظ ناموس رسالت مآب ﷺکے سلسلہ میں جو مختلف انداز میں سراپا احتجاج ہیں کیا یہ مظاہرے ، دھرنے ، جلوس، شرعاً جائز ہیں ؟

سوال 4 :آپ نے نزدیک اس نازک اور شرعی مسئلہ کاکامیاب حل کیا ہے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ڈنمارک اور ناروے کے ان حکمرانوں کا یہ موقف ازسر تاپاغلط ہے ہیں ، قرآن بلاشبہ ناحق قتل انسانی سے نہ صرف سخت  منع کرتا ہے بلکہ اس کی روک تھام کے لیے قصاص  کا قانون بھی پیش کرتا ہے ۔ وَلَكُم فِي القِصاصِ حَياةٌ يا أُولِي الأَلبابِکامژدہ بھی سناتا ہے ۔ مگر یہ حکم اور قانون علی الاطلاق نہیں بلکہ مشروط ہے ،یعنی جب کوئی فرد قرآن کی توہین کرتا ہے یا حامل قرآن کی گستاخی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو ایذاپہنچاتا ہے یا دین اسلام پرطعنہ زنی کرتا ہے تو وہ قرآن کے احکام اور نصوص کے مطابق واجب قتل ہے ۔ جیسا کہ ائمہ کفر ، سرکش معاندین اسلام، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کے گستاخ انسانوں کو قر آن واجب القتل اور مباح الدم قراردیتا ہے ، تفصیل کا یہ موقع ہے اور نہ فرصت ۔ سرے دست صرف دو آیات بطور نمونہ مشتے از خروارے پیش خدمت ہیں :

﴿ وَإِن نَكَثوا أَيمـنَهُم مِن بَعدِ عَهدِهِم وَطَعَنوا فى دينِكُم فَقـتِلوا أَئِمَّةَ الكُفرِ إِنَّهُم لا أَيمـنَ لَهُم لَعَلَّهُم يَنتَهونَ ﴿١٢﴾... سورة التوبة

اگر یہ لوگ عہدوپیمان کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سرداران کفر سے بھڑ جاؤ۔ ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں، ممکن ہے کہ اس طرح وه بھی باز آجائیں۔‘‘

امام المفسرين ابن كثيراس آیت کی تفسیر میں ارقام فرماتے ہیں :

اى عابوه انتقصوه ومن ههنا اخذ قتل من سب الرسول اللهﷺ او من طعن فى دين الاسلام او ذكره تنقص. (تفسير ابن كثير سوره توبه :12ص346)

کہ جب کفر کے لیڈ ر اسلام میں عیب چینی کریں اور تنقیص کے مرتکب ہوں تو ان سے جنگ کرو۔

یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ جو بد باطن رسول اللہﷺ کو گالی دے یا اسلام پرطعن کرے یا اس میں نقص  نکالے تو وہ نام نہاد مسلمان ہو یا کافر ، مرد ہو یا عورت ،مغربی ہو یا مشرقی ، جنوبی ہو شمالی ، لیڈرہو یا حکمران بش ہو یا اس کے چیلے چانٹے واجب القتل مباح الدم اور اس کا قتل ہدر اور رائیگاں ہے ۔

 ﴿فَإِن تابوا وَأَقامُوا الصَّلوةَ وَءاتَوُا الزَّكوةَ فَخَلّوا سَبيلَهُم إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿٥﴾... سورة التوبة

’’ پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو۔‘‘

امام ابن كثير فرماتے ہیں :

اى من الارض وهذا عام المشهور تخصيصة بتحريم القتال فى الحرم. (تفسير بن كثير ج2ص 343)

کہ امان کے مہینوں کے بعد مشرکوں کو جہاں بھی پاؤ قتل کر نے میں دریغ نہ کرو ،مگر مسجد حرام کے پاس جب تک وہ مسجد حرام کے پاس تم سے جنگ نہ کریں ۔ ورنہ بصورت دیگر وہاں بھی ان کو تہہ تیغ کرو ۔

امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت شریفہ کا مطلب یہ ہے کہ ان مشرکوں سے صرف میدان جنگ میں لڑنا ہی کافی نہیں بلکہ جس طریقہ سے تم ان پر قابو پاکر انہیں قتل کر سکتے ہو قتل کرو۔ (تفسیر کبیر ) قرآن مجید کی پہلی آیت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اگر کوئی ذمی شخص دین اسلام میں طعنہ زنی کا مرتکب ہو گا تو اس عہدذمہ کالعدم ہو جاتا ہے اور اس سے جنگ لڑنے کا ہمیں حکم ہے اور یہ امر ہر قسم کے شک وشبہ سے کہیں بالاتر ہے کہ رسول اللہﷺ کو گالی دینےسے بڑھ کر دین اسلام میں کوئی طعن نہیں ۔ کیونکہ اس سے شریعت کی توہین اور اسلام کی ہتک ہوتی ہے ۔

صاحب سیف وقلم امام ابن تیمیہ ﷫ حرانی رقم طراز ہیں:

ان الذمي اذا سب الرسول او سب الله او عاب الإسلام علانية فقد نكث يمينه وطعن في ديننا لأنه لاخلاف بين المسلمين وانه يعاقب على ذلك ويؤدب عليه. (الصارم المسلول ص16)

اگر کوئی ذمی شخص اللہ تعالیٰ یا رسول اللہﷺ کو گالی دے یا علانیہ اسلام میں عیب نکالے تو اس نے اپنی قسم کو توڑ دیا اور ہمارے دین میں طعنہ زنی کامرتکب ٹھہرا تو سا کو بلاکسی اختلاف اور نزاع کے سزا دی جائے گی اور اس کی تادیب کی جائے گی ۔‘‘

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ مزید رقم طراز ہیں :

واما الشافعى فالمنصوص عنه نفسه ان عهده ينتقض بسب النبى ﷺ وانه يقتل . ( الصارم المسلول )

امام شافعی ﷫کےنزدیک نبیﷺ کو گالی دینے سے معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے لہٰذا اگرذمی رسول اللہﷺ کو گالی دے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔

اما م ابن قیم ﷫ ایک مقام پر بحث کرتے ہوئے تصریح فرماتے ہیں :

فيها تعيين قتل الساب لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وأن قتله حد لا بد من استيفائه، فإن النبي صلى الله عليه وسلم لم يؤمن مقيس بن صبابة، وابن خطل والجاريتين اللتين كانتا تغنيان بهجائه، مع أن نساء أهل الحرب لا يقتلن كما تقتل الذرية، وقد أمر بقتل هاتين الجاريتين، وأهدر دم أم ولد الأعمى لما قتلها سيدها لأجل سبها النبي صلى الله عليه وسلماخرجه ابو داؤد فى الحدود والنسائى فى تحريم الدم من حديث ابن عباس سنده قوى.( زاد المعادج3ص 439)

یہ طے اور معین ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو گالی دینے والے کی سزا قتل ہی ہے او ریہ تعزیر نہیں بلکہ حد ہے جس پر عمل کرنا فرض اور ضروری ہے کیونکہ نبی ﷺ نےمقیس بن ضبابہ ، ابن ختل اور ان دو لونڈیوں کو جو رسول اللہﷺ کی ہجو کرتی تھیں کو  قتل کرا دیا (حالانکہ شریک جنگ کافروں کی عورتون کو قتل کرنے کی شرعا اجازت نیہں جیسے کہ بچوں کو قتل نہیں کیا جاتا )‘‘

آخر میں ایک حدیث صحیح  میں پڑھتے چلیے :

عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله ، ويقيموا الصلاة ، ويؤتوا الزكاة. (صحیح بخاریج1ص 8)

کہ عبد اللہ عمر ﷜ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کہ مجھے حکم ہوا کہ میں لوگوں سے اس وقت تک برسرپیکار اور معرکہ آراء رہا ہوں جب تک وہ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ ﷺ کی صدق دل سے گواہی نہ دیں اور نماز نہ پڑھیں او رزکوۃ دینے نہ لگ جائیں ۔‘‘

خلفائے راشدین اور صحابہ کا اجماع :

اس بات پر خلفائے راشدین او رتمام صحابہ کا اجماع ہےکہ گستاخ رسول واجب القتل اور مباح الدم اور اس کا قتل ہدر اور رائیگاں ہے ، یعنی اس کے قصاص میں قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا چنانچہ امام ابن قیم رقم طراز ہیں :

هذا اجماع من خلفاء الراشدين ولا يعلم لهم فى الصحابة مخالف. (زاد المعاد ج3ص 440)

ائمہ اربعہ کا فتویٰ :

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اپنی کتاب ’’ الصارم المسلول ‘‘ میں ارقام فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کی ذات والا صفات کا گستاخ اور آپ لتے لینے والا اور گالی بکنے والا اگرچہ مسلمان ہو یا کافر بالاتفاق علمائے اسلام قتل کیا جائے گا اس میں کوئی بھی مخالف نہیں ، ائمہ اربعہ مالک ابو حنیفہ ، شافعی ، احمدبن حنبل اور دوسرے ائمہ کا یہی مذہب اور فتوی ہے ۔

قرآن مجید کی مذکورہ بالادونوں آیات ، حدیث رسول ، خلفائے راشدین ، تمام صحابہ ﷢ ، ائمہ اربعہ ، اور سلف و خلف کی تفسیر اور توضیح سے واضح ہواکہ اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کو گالی دینےوالا ، دین اسلام میں عیب نکالنے والا اور قرآن کی توہین کرنے والا رسول اللہ ﷺ کے توہین  آمیز خاکے چھاپنے والا کسے باشد مسلمان ہو یاکافر ،مرد ہو یا عورت ، واجب القتل اور مباح الدم ہے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ﷫ وغیرہ محققین اور اسلامی قوانین کے غواص ایسے بدنصیب کو توبہ کرنے کی مہلت دینے کے بھی قائل نہیں ۔ لہذا ڈنمارک ، ناروے وغیرہ ملکوں کے حکمرانوں کے اس ادعاء میں قطعاً کوئی صداقت نہیں کہ قرآن مطلق انسانی قتل کے خلاف ہے ۔ اگر انہوں نے قوانین اور حدود کامطالعہ کیا ہوتا تواس مغالطے کا شکار نہ ہوئے ۔ ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

جواب سوال نمبر 2: جی ہاں عبد اللہ بن خطل اور اس کی 2لونڈیوں کو قتل کرادیا تھا کہ وہ اپنے گیتوں میں رسول اللہﷺ کی ہجو کرتی تھیں ۔ اسی طرح انہوں حویرث بن نقید کو بھی آپ نے قتل کروا دیا تھا کہ وہ آپ کی ہجو کا مرتکب تھا ۔ (صحیح البخارحاشیہ نمبر 8ص614)اسی طرح کعب بن اشرف یہودی کوقتل کرا دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کو ایذا دیتاتھا اور ہجوکرتا تھا (صحیح بخاری ج2ص 576)اور ابورافع عبد اللہ بن ابی الحقیق کو قتل کروا دیا تھا کہ وہ رسول اللہﷺ کو گالیاں بکتا اور آپ کے دشمنوں کا تعاون کرتا تھا ۔ اسی طرح مقیس بن ضبابہ کو بھی آپ کے حکم کے قتل کیا گیا  وغیرہ غرضیکہ ایسے اور بھی بہت بدنصیب ہیں کہ جنہیں رسول اللہﷺ کو گالی دینے کی پاداش میں قتل کر دیا گیا اوریہ عمل آج تک پیہم چلا آرہا ہے ۔

جواب سوال نمبر 3: تحفظ ناموس رسالت کے لیے موجود جلوس ، دھرنے ، ہڑتالیں اور مظاہرے موجود جمہوری اور معروضی حالات میں شرعاً جائز لگتے ہیں مشہور عام صحیح حدیث ہے سے جواز کسی حدتک ممکن لگتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا :

من رأى منكم منكرا فليغيره بيده ، فإن لم يستطع فبلسانه ، فإن لم يستطع فبقلبه ، وذلك أضعف الإيمان. (رواہ مسلم عن ابی سعیدالخدری)

کہ تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو اس کو زور بازو سے ختم کرے، اگر اس کا بازو میں اتنی طاقت نہ ہو تو زبان کیساتھ اس کا خلاف صدائے احتجاج بلند کرے، اور اگر صدائے احتجاج کی طاقت اور اجازت نہ ہو تو دل سے اس برائی کیساتھ سمجھوتہ نہ کرے اور یہ کمزور ترین ایمان کی علامت ہے۔

اور یہ بات عیاں راچہ بیاں کی مکمل مصداق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات برکات کے انکار کے بعد رسول اللہﷺ کی ذات والا صفات کی گستاخی ، اسلام اور قرآن کی توہین اور گستاخی اکبر المفکرات اور تمام برائیوں سے بڑی برائی ہے۔

لہٰذا اس برائی کیخلاف مسلمانوں کا یہ احتجاج اور اشتعال و ہیجان ان کی قومی غیرت کا اظہار نہ صرف فطری اور طبعی امر ہے بلکہ روشن ضمیر مسلمانوں کے ایمان کی شناخت اور پہچان بھی ہے، اور یہ توہین آمیز خاکوں اور قرآن کی بے ادبی کے واقعات کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ یہ ایک طے شدہ پلان کا حصہ ہیں جس کے ذریعے اہل توحید کی اسلامی غیرت اور ملی جذبات کا جائزہ لینے کیلیے تیار کیا گیا ہے۔ تاکہ بعد ازاں اسلام اور مسلمانوں پر کاری ضرب لگا کر ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ یعنی یہ فری میسن اور صہیونی تحریک کی ابتدائی کاروائی لگتی ہے۔ لہٰذا ان توہین آمیز خاکوں کے خلاف اہل توحید ، گیور مسلمانوں اور رسالت کے پروانوں کے یہ جلوس ، دھرنے، ہڑتالیں اور مظاہرے چونکہ جمہوری دور میں صدائے احتجاج کے مختلف انداز اور مظاہر ہیں، اس لیے یہ نھ صرف شرعاً جائز ہیں بلکہ مسلمانوں کا ملی، شرعی، آئینی ،قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے اور بقائے باہمی کے اصولوں کے عین مطابق ہے مگر توڑ پھوڑ کے ہم حامی نہیں۔ یہ ملکی املاک کا اتلاف ہے جس کی تائید نہیں کی جا سکتی۔

جواب  سوال نمبر(4): جیسا کہ ہم سوال نمبر3 کے جواب میں لکھ چکے ہیں کہ امریکہ میں توہین قرآن کے دلدوز واقعات اور ڈنمارک اور دوسرے مغربی ممالک کی طرف سے بے لگام صحافت اور آزادی اور اظہار رائے کے بہانہ رسول اللہ ﷺ کی توہین پر مبنی روح فرسا خاکے کوئی اتفاقی حادثہ نہیں۔ بلکہ امت مسلمہ کی اسلامی حمیت دینی عصبیت قومی غیرت اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت اور عقیدت  شیفتگی وابستگی اور قرآن مجید کی صداقت اس کی تلاوت اور اس کے جہادی احکام کے ساتھ گرویدگی اور وارفتگی کی بنیادوں کی مضبوطی اور گہرائی کا جائزہ لینا مقصود ہے اگر یہ بنیادیں کھوکھلی اور ناپائیدار ثابت ہوں تو مناسب وقت پر اپنی حربی قوتوں کو یکجا کر کے مسالمانوں پر کاری ضرب لگا کر اسلام اور مسلمنوں کو صفحہ ہستی سے اوجھل اور نابود کر دیا جائے یا پھرعلی الاقل اسلام کے دونوں مرکزوں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ حفظہما اللہ پر قبضہ کر کے عالم اسلام اور دوسرے مسلم ملکوں کو اپنی نو آبادیات بنا لیا جائے فری میسن اور صہیونی تحریکیں مسلمانوں کی بیخ کنی جیسے غیر انسانی اور ناپاک مقاصد کے حصول کیلیے انڈر گرانڈ سازشوں کا تانا بانا تیار کرنے میں شب و روز مصروف چلی آ رہی ہیں اس تناظر میں یہ ہڑتالیں ، دھرنے اور مظاہرے اپنی تمام تر افادیت کے باوجود اس ملی شرعی اور قومی مسئلے کے مستقل اور پائیدار حل نہیں اس لیے ھمارے نزدیک مستقل اور پائیدار حل کیلیے یکے بعد دیگر حسب ضرورت مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانے لازمی اور ناگزیر ہیں ۔

(1):۔ ۔۔۔ سب سے پہلے اقوام متحدہ کے تمام مسلمان ارکان اس قدر منظم اور بھرپور مطالبہ کریں کہ وہ اسلام سمیت رائج مذاہب ان کی کتابوں کو ان کے انبیاء کے ناموس کے تحفظ کیلیے بین الاقوامی تعزیری قانون سازی پر مجبور ہو جائے۔

(2)۔۔۔ اگر اقوام متحدہ اس پر تیار نہ ہو تو سلامتی کونسل اور دوسرے بین الاقوامی اداروں پر دستک دی جائے اگر وھاں بھی کامیابی نہ ہو تو پھر نہ صرف ان تمام اداروں کا بائیکاٹ کر کے امریکہ ،ڈنمارک ، ناروے اور ان کے حامی ملکوں کے سفارت خانے بند کر دیئے جایئں اور اپنے سفیر واپس بلا کر ان سے کیئے گئے تمام سیاسی اقتصادی معاہدے کلعدم قرار دے کر اپنا الگ اسلامی بلاک اور تجارتی منڈی قائم کی جائے۔

(3)۔۔۔۔۔ ان ملکوں کو تیل کی سپلائی بند کر دی جائے اور عرب کے سرمایہ دار شیوخ اور دوسرے تمام مسلمان سرمایہ دار مغربی ملکوں کے بینکوں سے اپنا سرمایہ نکال کر اپنی بین الاقوامی اسلامی بینک قائم کر کے اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں  اللہ کا دیا ھمارے پاس سب کچھ موجود ہے۔ یہ کوئی انہونا کام نہیں ضرورت صرف اسلامی عصبیت ، دینی حمیت اور قومی غیرت اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غیرمشروط مگر  مخلصانہ محبت اور توکل علی اللہ کی ہے۔ اللہ کے فضل سے دولت ہمارے پاس ڈاکٹر عبدالقدیر  جیسے کہنہ مشق ایٹمی سائنسدان موجود بین الاقوامی شہرت کے مالک جج وکلاء سفراء اور دانشور صحافی اور پالیسی ساز اور کہنہ مشق  جنرل اور لاکھوں کی تعداد میں مسلح افواج  ، ایٹم بم اور میزایئل موجود اور مزید تیار کرنے کی صلاحیت موجود ۔ لہٰذا اقوام متحدہ کے مقابلے میں مسلم امہ کے روشن مستقبل کیلیے مالی ، جانی قربانی سے دریغ نہیں ہونا چاہییے۔ اگر امت مسلمہ ایسا نہیں کرتی تو مسالمان حکمران ، فرمان روا ، لیڈر اور سرمایہ دار یہ یاد رکھیں کہ ان کی حوس اقتدار ان کی عیش و وشرت اس کو دنیا میں ذلت و خواری سے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچا نہ سکیں گی-

کیونکہ اسلام کا فروغ استحکام ناموس رسول کے تحفظ کامیاب حل صرف جہاد فی سبیل اللہ میں مضمر ہے اور جہاد فی سبیل اللہ کیلیے اتحاد اور اسلامی بلاک کا قیام بعجلت تام از بس ضروری اور ناگزیر ہے۔ لہٰذا اسلامی بلاک بنا کراپنے تمام مالی ، سیاسی ، ایٹمی وسائل جمع کر کے جہاد فی سبیل اللہ  کا اعلان کر دینا چاہیے۔ پھر دیکھیے اللہ کی نصرتیں اور مدد کس طرح سےغزیان فی سبیل اللہ کا استقبال اور قدم بوسی کرتی ہیں۔إِن تَنصُرُ‌وا اللَّـهَ يَنصُر‌كُم وَيُثَبِّت أَقدامَكُم ڈاکٹر اقبال بھی مسلمانان عالم سے یہی مطالبہ کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہو گئے؏

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلیے                

کشمیر کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغر

اللهم اعز الاسلام والمسلمين حيثما كانوا مشارق الارض ومغاربها

ایں  دعا از من و جملہ جہاں آباد (عفیف)

دادیم نشاں زگنج مقصود ترا       ماگر نہ رسیدیم تو شاید برسی

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص166

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ