سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(17) انبیاء کی حیات برزخی کی نوعیت

  • 13491
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2287

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر حضور ﷺ کی قبر مبارک کے نزدیک درود اور سلام پڑھا جائے تو کیا آنحضرت ﷺ سن سکتے ہیں ؟ کیا آنحضرتﷺ اس شخص کے سلام کے جواب دیتے ہیں ؟ کیا انبیاء علیہم السلام کے قبر میں ’’رزق‘‘ دیا جاتا ہے ؟ کیا انبیاء کرام اپنی قبروں میں عبادت کرتےہیں ؟ نیز کیا دور دراز جگہ سے اگر کوئی شخص درود اور سلام پڑھے تو کیا  حضور ﷺ کو پہنچ جاتا ہے ؟

نوٹ :میں نے سنا ہے کہ علامہ جلال الدین سیوطی اور امام بیہقی رحمہما اللہ نے حیاۃ النبی ﷺ پر باقاعدہ رسالے لکھے ہیں کہ آنحضرت ﷺ زندہ ہیں تو کیا یہ بات صحیح  ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاں اس قسم کی روایتیں کتابوں میں موجود ہیں لیکن وہ سند کے اعتبار سے سخت مخدوش ہیں جو دلیل بننے کے قابل نہیں ، مثلاً :حضرت ابو ہریرہ ﷜ کی طرف ایک منسوب یہ روایت ہے ۔

من صلى على عند قبرى سمعته ومن صلى على نائيا ابلغته . (رواه البهقى فى شعب الايمان )

كہ’’ جومیری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھتا ہے تو میں سن لیتا ہوں اور جو دور سے پڑھے تو وہ مجھ کو پہنچا دیا جاتا ہے ۔‘‘

لیکن یہ روایت سخت کمزور ہے وجہ یہ ہے کہ اس کی سند میں دوراوی علاء ابن عمرو الحنفی اور محمد بن مروان سدی (استاد و شاگرد) جھوٹے شمار کیے گئے ہیں ، استاد محمد بن مروان سدی حدیث گھڑنے میں اور جھوٹی حدیثیں روایت کرنے میں شہرت رکھتا ہے ۔

محمدبن مروان سدى بن عبد الله بن اسماعيل السدى الكوفى متهم بالكذب. (تقريب ص318)

حافظ محمد بن عبدالہادی مقدسی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

هذا الحديث موضوع على رسول الله ﷺ ولم يحدث به ابوهريره ولا ابوصالح ولا الاعمش ومحمد بن مروان السدى متهم بالكذب والوضع.  (الصارم المنكى ص190)

دوسرے راوی علاء بن عمرو کے بارے میں امام ابن حبان لکھتے لا يجوز الاحتجاج به بحال (كتاب المجروحين ص 173ج2)یہ قول حافظ ذہبی﷫ نے الغنی فی الضعفاء میں بھی نقل کیا ہے ( 440ج2) مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ میں اس روایت کے سلسلے میں بہت عمدہ فیصلہ دیا ہے ۔

وبالجمله حديث ابى هريره هذا ضعيف غاية الضعف واه ساقط بل لوادعى احدكم كونه موضوعا لايكون فيه شىء من المبالغة والعجب من المصنف انه اورد هذا الحديث من غير ان يذكر مافيه من الكلام الموجب سقوطه عن الاحتجاج والاستشهاد والاعتبار . (مرعاةص699ج1 طبع لاہور)

یعنی ’’حاصل یہ ہے کہ یہ روایت سخت ضعیف ، واہی اور ساقط ہے ، اگر کوئی اسے موضوع کہہ دے دیا تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔خطیب تبریزی پر تعجب ہے کہ انہوں نےاس حدیث کو بلاجرح ذکر کر دیا ہے کیونکہ کسی طرح بھی یہ روایت دلیل استشہاد اوراعتبار کے قابل نہیں ۔‘‘

میں کہتا ہوں لطیفے کی بات یہ ہے کہ اس روایت کےبعض الفاظ میں ’’سمعته‘‘ کا لفظ ہے ہی نہیں جیسا کہ صاحب المنکی کا ذکر کیا ہے ، اور وہ یہ ہے :

عن ابى هريره قال قال رسول اللهﷺ مامن عبد يسلم على عندقبرى الا وكل الله به ملكا يبلغنى وكفى امر آخرتة ودنياه وكنت له شهيد وشفيعا.( الصارم المنكى ص 180طبع جديد)

یعنی ’’ جو میری قبر کے پاس مجھ پر صلوۃ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر کررکھا ہے جو درود کومجھ تک پہنچا دیتا ہے ، درود پڑھنے  والے کے اخروی اور دنیوی کام ٹھیک کر دئیے جاتے ہیں ۔ میں اس کا گواہ اور سفارشی بنوں گا۔ ‘‘

راوی اس روایت کا بھی وہی سدی ہے جس کامطلب یہ ہوا کہ روایت یہ بھی خودساختہ  اور جعلی ہے ۔ علاوہ ازیں یہ روایت کئی دوسری حدیثوں کے خلاف ہے جواکثر حسن درجے کی ہیں اور سنن مسانید اور معاجم میں مروی ہے ، چنانچہ سنن ابی داؤد کی یہ مشہور حدیث ہے :  

عن ابى هريره قال قال رسو ل الله ﷺ مامن احد يسلم على الا رد الله على  روحى حتى ارد عليه السلام – (مشكوة مع مرعاة ص688ج 1)

کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ پر جوشخص بھی سلام پڑھتا ہے تو میری روح واپس کی جاتی ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ۔ ( اس حدیث کو متشابہت سے سمجھنا چاہیے ۔ ع، ح)

انما هو حديث اسناده مقارب وصالح ان يكون متابعا لغيره وعاضدا له ( مرعاة)

دیکھئے اس روایت میں دور نزدیک قبر اور غیر قبر کا کوئی فرق بیان نہیں ہوا ۔

دوسری حدیث اس روایت حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے مروی ہے :

قال سمعت رسول الله ﷺ يقول لا يجعلوا بيوتكم قبورا ولا تجعلوا قبرى عيدا و صلوا على فان صلوتكم تبليغى حيث كنتم . (رواه ابو داؤدو اسناده حسن )

 ’’ابوہریرہ ﷜ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کویہ فرماتے سنا کہ لوگو! اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ اور میری قبر کو عید نہ ٹھہرانا اور مجھ پر درود پڑھنا ، بے شک تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے تم خواہ کہیں بھی ہو ۔‘‘

اس حدیث میں بھی دور یا نزدیک کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا ۔ اسی طرح کی حدیثیں حضرت حسین ﷜ بن علی اور علی بن ابی طالب ﷜ سے محدث ضیاء مقدسی نے اور بھی نقل کی ہیں ۔

شیخ محمد بن عبدالہادی مقدسی لکھتے ہیں :

فهذه الاحاديث المعروفة عند اهل العلم التى جاءت من وجوه حسان تصدق بعضها بعضا فهى متفقه على ان من صلى الله عليه وسلم من امته فان ذلك يعرض عليه ويبلغه (صلي الله عليه وسلم) تسليما:

’’درود و سلام کے متعلق اہل علم کے ہاں جو حدیثیں مشہور ہیں وہ بحثیت مجموعی اتنی قوی ہیں کہ وہ حسن بن جاتی ہیں ، ان میں صرف نبی ﷺ تک درود پہنچا دینے کا ذکر ہے ان میں سے کسی میں یہ ہرگز نہیں آتا کہ آپ براہ راست سن لیتے ہیں۔‘‘

(ب) انبیاء کرام برزخی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کو رزق بھی برزخی ملتا ہے ۔ دنیوی زندگی یا دنیوی رزق دیا جاتا کہیں ثابت نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں قبر میں رزق دئیے جانے کی روایت سنن ابن ماجہ میں بایں سند وارد ہے ۔

حدثنا عمروبن سوادالمصرى حدثنا عبدالله بن وهب عن عمروبن الحارث عن سعيد ابى هلال  عن زيدبن ايمن عن عبادة بن نسي عن  أبي الدرداء رضي الله عنهأخرج ابن ماجة في سننه عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا، قَالَ:قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ ؟! قَالَ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ. فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ. (سنن ابن ماجه ص500ج1)

كہ ’’جمعہ کے دن مجھ پرکثرت سے درود پڑھا کرو ۔ اس درود پر رحمت کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور درود پڑھنےوالے کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ ابو دؤاد ﷜نے پوچھا : آپ ﷺ کے مرنے کے بعد درود آپﷺ پر پیش کیا جاتا رہے گا؟ آپﷺ نے فرمایا : ہاں موت کےبعد بھی ۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کو حرام قرار دیا ہے ۔ اللہ کانبی زندہ ہے اور اسے رزق دیا جاتا ہے ۔‘‘

لیکن یہ سند دلیل اس لیے نہیں ہو سکتی کہ یہ ضعیف ہے کیونک دو جگہ اس میں انقطاع ہے ۔ حضرت ابودرداء سے عبادہ بن  نسیی کا سماع اور عبادہ سے زید بن ایمن کا سماع ثابت نہیں ہے ۔ لہٰذا ناقابل حجت ہے ۔ علامہ سندھی لکھتے ہیں :

هذا الحديث صحيح الا انه منقطع فى موضعين لان عبادة بن نسبى روايته عن ابي الدرداء مرسلة قاله العلاء و زيد بن ايمن عن عبادة مرسلة قاله البخارى. (حاشيه سندهى على سنن ابن ماجه ص501ج1)

حافظ ابن حجر﷫ لکھتے ہیں ۔

رجاله ثقات لكن قال البخاري زيد بن أيمن عن عبادة بن نسى مرسل. (تهذيب التهذيب ص398ج3)زيدبن ايمن مقبول  من السادسة طبقة عاصر والخامسة لكن لم يثبت لهم لقاء احد من الصحابة كابن جريج. (تقريب ص110و 112)

بہر حال انبیاء ، اولیاء ، شہداء اور مومنین کوبرزخی زندگی حاصل ہے ۔ شہداء کی برزخی زندگی عام مومنین کی زندگی سے اعلیٰ ہے اور انبیاء کی برزخی زندگی سے اعلیٰ اور قوی ہے ، لیکن اس برزخی زندگی کو دنیا کی زندگی قرار دینا نصوص صریحہ سے صریح انکار ہے ۔ قرآن مجید میں ہے ۔

﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَيِّتونَ ﴿٣٠﴾... سورةالزمر

’’ یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں ‘‘

جب فرط عقيدت اور وفور غم سى حضرت عمر ﷜ اوربعض صحابہ کرام ﷢ نے آنحضرت ﷺ کی موت پر یقین نہ کیا تو حضرت ابو بکر ﷜ تشریف لائے ۔ حمد وثنا کےبعد خطبہ پڑھا:

الا من كان يعبد محمد فان محمد قد مات ومن كان يعبد الله فان الله حى لايموت وقال﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَيِّتونَ ﴿٣٠وقال ﴿وَما مُحَمَّدٌ إِلّا رَ‌سولٌ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّ‌سُلُ ۚ أَفَإِن ماتَ أَو قُتِلَ انقَلَبتُم عَلىٰ أَعقابِكُم ۚ وَمَن يَنقَلِب عَلىٰ عَقِبَيهِ فَلَن يَضُرَّ‌ اللَّـهَ شَيئًا ۗ وَسَيَجزِي اللَّـهُ الشّاكِر‌ينَ﴾. (صحيح بخارى ج1 ص 116)

’’سن لوکہ جوشخص محمد ﷺ کو پوجتا تھا تو محمدﷺ فوت ہو گئے ہیں اور جو اللہ کو پوجا کرتا ہے اسے معلوم رہے کہ اس کا اللہ تعالیٰ زندہ جاوید ہے اسے کبھی موت نہیں ، پھر صدیق ﷜ نے قرآن کی یہ دو آیتیں پڑھیں ’’ یقیناً خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔‘‘ ( سورہ زمر ) ’’ (حضرت) محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ صرف رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں، کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا یہ شہید ہو جائیں، تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا، عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا ۔‘‘

آپﷺ کی وفات حسرت آیات کےبعد تجہیز و تکفین ، لحد ، جنازہ ، ازاں بعد خلافت کا انعقاد ، حضرت فاطمہ ، علی اور عباس ﷜ کا ترکے کا مطالبہ کرنا بجائے خود وفات رسول ﷺ پر شاہد عدل ہیں ۔

(ج) قبروں میں انبیاء کی زندگی ، عبادت اور نماز کے متعلق اس حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے :

 الانبياء احياء فى قبورهم يصلون – (بيهقى)

کہ ’’ابنیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں‘‘

اولاً یہ حدیث بھی صحیح نہیں اس کا راوی حسن بن قتیبہ خزاعی ہے جس کو امام ذہبی نے ہالک ، دار قطنی نے متروک الحدیث ، ابو حاتم نے ضیعف ازدی نے لین الحدیث اور عقیلی نے کثیر الوہم کہا (میزان الاعتدال ص421ج1)شیخ الاسلام حافظ ابن حجر ﷫ نے بھی اسے ضعیف لکھا ہے ( لسان المیزانص226ج2)

ثانیاً :اس روایت سے بھی حیات برزخی ہی کا ثبوت مہیا ہو سکتا ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ۔ اس حیات دنیوی کا ثبوت اس سے نہین نکلتا جس کےمبتدعین قائل ہیں ۔

(د) یہ ٹھیک کہ حافظ بیہقی ﷫ اور شیخ جلال الدین سیوطی کے دو رسالے اس موضوع پر ہیں لیکن ان میں جو روایات ذکر کی گئی ہیں ۔ ان کا حال عجالہ نافعہ از شاہ عبدالعزیز دہلوی﷫ سے معلوم ہو سکتا ہے ۔ جس کی عبارت یہ ہے ۔ صحیح و حسن و ضعیف بلکہ مہتم بالکذب نیز درآں کتب یافتہ مے شوردو رجال آں کتب بعضے موصوف بالعدالت اند بعضے مستورو بعضے مجہول و اکثر آں احادیث معمول بہ نزد فقہاء نہ نشد اند بلکہ اجماع بر خلاف آنہا منعقد گشتہ وآں کتب این است مسند شافعی ، سنن ابن ماجہ ) مسند دارمی ، مسند ابی یعلی ، کتب بیہقی ، کتب طحاوی ، تصانیف طبرانی عجالہ نافعہ ص7۔ بقول شاہ عبدالعزیز تیسرے طبقے کی کتب میں کچھ حدیثیں صحیح ،کچھ ضعیف ،کچھ جعلی ہوتی ہیں ۔ او راکثر حدیثیں اس طبقے کی فقہاء کے نزدیک قابل عمل نہیں بلکہ عمل نہ کرنے پر اجماع منعقد ہو چکا ہے وہ کتابیں یہ ہیں : مسند شافعی ، کبت بیہقی وغیرہ ۔ کتب سیوطی پر یوں تبصرہ کرتے ہیں :

مایہ تصانیف شیخ جلال الدین سیوطی ورسائل و نو ادر خود ہمیں کتابہا ہست واشتغال باحادیث ایں کتب واستنباط احکام ازانہالا طائل مینمایند، (عجالہ نافعہ ص8) شیخ جلال الدین سیوطی نے اپنی تصانیف میں اسی تیسرے طبقے کی کتب سے ورایت اخذ کی ہیں ۔ ان حدیث میں مشغول ہونا اور ان سے استنباط احکام ناجائز ہے ۔

(5)جہاں تک حضرت موسیٰ کی نماز کا تعلق ہے تو وہ معراج کی رات کا واقعہ ہے اور وہ پوری کی پوری رات معجزہ تھی ۔ لہٰذا اس سے استدلال بالاتفاق اہل علم صحیح نہیں ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص152

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ