سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(599) شادی شدہ کا دوسری عورت ناجائز اولاد حاصل کرنا

  • 13341
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1410

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک نو جوان  نے جو کہ  شا دی  شدہ ہے اپنا  گھر  بار  بچے  وغیرہ  ہیں  دوسری  کسی عورت  سے مرا سم  پیدا  کر لیے (جو کہ بغیر  نکا ح  کے کسی اور مرد کے ساتھ رہتی ہے ) اور اس کی دو عدد بچیا ں  بھی ہو گئیں  مگر اس چیز کا علم اس نو جوان  کی اپنی پہلی بیوی اور بچے کو نہیں ہے  اور نہ ہی اس چیز (دو بچیوں )کا علم دوسرے  مرد  کو ہے کہ یہ دو نو ں  لڑکیا ں  جو میرے  پا س رہتی ہیں کسی اور مرد  کی ہیں  مگر یہ نو جوان اب بھی اپنی دوست لڑکی کو ملتا ہے جو کہ  ابھی تک اسی مرد کے ساتھ رہتی  ہے وہ مردان کو اپنی اولاد  تصور کرتا ہے اور یہ نو جوا ن اپنی اولا د تصور  کرتا ہے کیا ۔

(1)یہ بچیاں حلال ہیں یا حرا م ا گر حرام ہیں تو حلال  کیسے ہو سکتی  ہیں ۔ اگر حرا م ہیں تو ان بچیوں کا کیا قصور ہے ؟

(2)اس نوجوان کی اب اپنی سہیلی  سے شادی ہو سکتی ہے؟(جو کے اہل  کتاب  ہے )

(3)اسلا می  قانو ن کے تحت اس نو جوان  کی کیا سزا  ہے ؟اس کی سہیلی  کی کیا سزاہے ؟اور ان دو بچیوں کے بارے  میں  اسلام کیا کہتا  ہے ؟

 (4)اسلام میں جہاں سزا کا تعلق ہے وہاں معا فی بھی ہے  اس جرم کی معافی کیسے ہو سکتی  ہے ؟بچیاں  کیسے  حلال ہو سکتیں  ہیں؟ یا یہ کہ دو نو ں بچیوں  کو یہ نو جوان  بھو ل جا ئے  اور اولاد تصور نہ کر ے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1)سوال میں مذکور دونوں بچیاں  چو نکہ  نطفہ  حرا م ہیں اس لیے ان کے حلال  بننے  کی کو ئی صورت نہیں واقعی  ان بچیوں کا تو کو ئی قصور نہیں قصور سب زانی کا ہے یا پھر مزینہ کا ہے لیکن چونکہ یہ حرا م ملاپ کا نتیجہ  ہیں اس لیے اولاد الزنا  ہیں جس کی بناء پر ان کا نسب اور میراث جہت والد شرعاً منقود ہے ہاں البتہ نیکی کی صورت میں  ان کے اعمال  کا اعتبار  اور شمار  ہے مثلاً ولد الزنا اہلیت  کی بناء پر امامت کرا سکتا ہے حدیث میں ہے ۔

«يومهم اقروهم لكتاب الله»

اس حدیث  کے عموم  کی بنا ء پر  امام بخا ری  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اپنی صحیح  میں ولد البغی کی صحت  امامت پر استدلال کیا ہے ۔حا فظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ   فر ما تے  ہیں

«زهب الجمهور الي صحة امامة ولد الزنا» ايضا  فتح الباري (٢/١٨٥)

یعنی ’’جمہور  اہل علم  کے نز دیک  بھی ولد الزنا کی امامت درست ہے ۔‘‘

(2)کتابیہ سے نکا ح  کا جواز ہے (سورۃ الما ئدہ )بشر طیکہ یہ حرا م  کا ری کے ذریعہ نہ ہو  بایں صورت تا ئب ہو نا ضروری  ہے ۔

(3)اگر یہ حرا م کا ری کے مرتکب ہیں تو ان  پر شرعی  سزا نافذ ہو گی  لیکن اس کا نفا ذ کرنا حکو مت کا کا م ہے بصورت دیگر تا ئب ہو نا کا فی ہے اور بچیاں  نیکی کی سعی کریں ۔

(4) زانی اپنے جرم پر اللہ کے حضور تا ئب ہواور بچیوں کا سلسلہ نسب  اس سے ملحق نہیں  ہو سکتا کیو نکہ یہ حرام  کا ری  کا نتیجہ  ہیں ۔جب کہ اسلام عفت و عصمت کا درس  دیتا ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص874

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ