سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(592) وعدہ معاف گواہوں کی حیثیت

  • 13334
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 2694

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ملک میں بعض سنگین  جرا ئم  کے ثبوت  کے لیے وعدہ معاف گو اہوں  پر اعتماد  کر کے دوسروں  کو سزادی جا تی  ہے  حا لا نکہ اس کی گو اہی  خو د جرم  یا جرم  میں تعا ون  کر نے  کی بنا ء پر مشکو ک  اور ناقابل  اعتماد  بن  جاتی  ہے وہ جرم  میں  نہ ملوث  ہو نے والے کسی دیگر پر بھی الزام عا ئد کر سکتا ہے یا جرم کے خلا ف  جرم  کی سنگینی  یا نر می کی بلا جواز  گواہی  دینا اس سے بعید  از  قیاس نہیں سکتا  ہے کہ  خود مجر م ہو اور  قتل  یا رجم جیسی  سنگین  سزا  سے بچ نکلنے  کے لیے ٹھہرا دے  خیا ل ہے کہ ایسا  گواہ عادل  نہیں ہو سکتا بایں ہمہ اگر وہ اپنے جرم  کا  من وعن  اقرار بھی کر لیتا ہے تو کیا شرعی لحا ظ سے وہ سزا  کا مستوحب ہو گا یا نہیں؟ اور کیا احکا م کو ایسا وعدہ کرنے اور اسے جرم کی سزا  معا ف کرنے کا حق حاصل  ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وعدہ معا ف گواہ  کا دین اسلا م میں کو ئی تصور نہیں اس کا صف صاف  مطلب  اور مفہوم  یہ ہے کہ وعدہ معاف  گواہ  بہت بڑا  مجرم ہو نے کے با و جو د خود سا ختہ  قا نو ن کی نظر میں بڑا پا ک  صاف ہے  اگر چہ  فی  الواقع  وہ ایسا نہ ہو اس کی حیثیت  مو م کی نا ک سی ہے  ار با ب اقتدار  جس طرف  چاہیں مو ڑ لیں  اس  کے ذریعے  چاہیں  تو غیر  مجرم  کو مجرم قرار دے دیں  اور یہ سب سے بڑا  ظلم  ہے قرا ن  میں واضح  حکم ہے ۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كونوا قَوّ‌ٰمينَ بِالقِسطِ شُهَداءَ لِلَّهِ وَلَو عَلىٰ أَنفُسِكُم أَوِ الو‌ٰلِدَينِ وَالأَقرَ‌بينَ ۚ إِن يَكُن غَنِيًّا أَو فَقيرً‌ا فَاللَّهُ أَولىٰ بِهِما ۖ فَلا تَتَّبِعُوا الهَوىٰ أَن تَعدِلوا ۚ وَإِن تَلوۥا أَو تُعرِ‌ضوا فَإِنَّ اللَّهَ كانَ بِما تَعمَلونَ خَبيرً‌ا ﴿١٣٥﴾... سورة النساء

’’اے ایما ن والو! انصا ف  پر قا ئم  رہتے  ہو ئے اللہ کے لیے سچی گواہی دو خواہ (اس میں ) تمہا را یا تمہا رے  ما ں با پ اور رشتہ داروں کا نقصا ن  ہی ہو ۔  اگر کو ئی امیر ہو یا فقیر  تو اللہ ان کا خیر  خواہ ہے تو تم خواہش  نفس  کے پیچھے  عدل نہ چھوڑ  دینا اگر تم پیچدار شہادت  دو گے یا (شہادت سے)بچنا چا ہو گے تو (جان رکھو )  اللہ تمہا رے  سب کا مو ں سے واقف ہے ۔‘‘

اس آیت کر یمہ سے معلوم ہوا کہ دین دنیا  کی نعمتوں سے سر فراز  ہو نے کے لیے عدل و انصاف کا دامن کسی حالت میں  نہیں چھوڑ نا چا ہیے  خواہ ظاہری  حا لا ت آدمی کے نا مسا عد ہی ہوں ۔

مجرم کو اپنے  کئے کی سزا ہر صورت میں ملنی چاہیے  جب تک صا حب  حق معا ف نہ کرے جرم معا ف  نہیں ہو تا خواہ اس میں حکام  عمل دخل  کی سعی کیوں نہ کریں  حقو ق العباد  کا معاملہ  نازک  ہے حکو مت کا کا م  حقوق  پر ڈا کہ ڈا لنا نہیں بلکہ ہر  حا لت میں انصاف  فرا ہم کرنا ہے اللہ رب العزت جملہ اہل اسلام میں فہم و  فراست  پیدا  فر ما ئے ۔آمین!

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص869

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ