سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(571) شادی میں تحائف دینا

  • 13313
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1542

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شادی میں لین دین  اسا تذہ کا شاگرد سے معا وضہ  اور تحا ئف کی امید اور مال پر نظر کا ہو نا ان چیزوں  کا شرعی  حکم  در کا  ر ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بمو قعہ شادی لین دین  طبعی  خوشی میں شا مل ہے شر یعت  میں ممانعت وارد  نہیں اسی طرح اساتذہ ۔کرا م کا اپنے شاگردوں  سے  تحفے  تحائف وصول  کرنا بھی طبعی خوشی  کے زمرہ میں آتا ہے تا ہم اساتذہ  کو اس سلسلہ میں طلبہ  کو مجبور نہیں کرنا چاہیے ۔(1)


1۔شادی کے موقع پر جو لین دین ہوتا ہے جسے نیوتا کہا جاتا ہے۔ اس کی ابتداء تو بظاہر اچھے مقاصد کے لئے ہوئی ہوگی کہ تمام ر شتے داروں کی طرف سے    تعاون حاصل ہوجاتا اور غریب  آدمی کو مالی سہارا مہیا ہوجاتا ہے۔اس کا جواز صرف اس صورت میں تو شک وشبہ سے بالا ہے کہ دینے والا صرف  تعاون یا تحفے کی نیت سے دے واپسی کی نیت سے نہ دے لیکن اب یہ صورت تعاون یا تحفہ سے بڑھ کر سودی قرض کی سی شکل اختیار کرگئی ہے اب دینے والا اس نیت سے دیتا ہے کہ میں سو روپیہ دوں گا تو میرے بیٹے یا بیٹی کی شادی پر اس سے دوگنا یا ڈیڑھ گنا مجھے واپس مل جائے گا۔اور اگر کوئی اس طرح واپس نہیں کرتا تو اس پر بُرا منایا جاتا ہے اور اسے رقم ہضم کرجانے سے تعبیر کیا جاتا ہے یوں گویا تعاون کی جگہ سودی ذہنیت نے لے لی ہے۔اور یوں بلا تامل سود لیا اور دیا جارہا ہے۔اور نام اس کا تحفہ ہدیہ یا سلامی ہے۔بناء بریں اب اس رواج کو بدلنے  کی ضرورت ہے اور اس کی صورت یہی ہوسکتی ہے کہ شادی کے موقعوں پر تحائف وہدایا اور سلامی وغیرہ کا سلسلہ بالکل ختم کردیاجائے۔کوئی محتاج اور ضرورت مند ہوتو اسے   بطور قرض حسنہ آسان شرائط پر رقم دی جائے۔(صلاح الدین یوسف)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص846

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ