سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(547) مجبوری کی وجہ سے زیرِ ناف بال دیر سے کاٹنا

  • 13289
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1732

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شرعاً حکم ہے کہ زیر نا ف بال ایک ما ہ کے اندر اندر  ہر ما ہ صاف کئے جا ئیں اس میں تشریح  طلب  درج ذیل  مسا ئل  ہیں ۔

(1)زیر نا ف  سے مرا د  ہے کہ با ل  ٹھیک نا ف سے لے کر خا دوں سے نیچے تک حصہ  صاف کیا جا ئے کیا خادوں کے بال بھی صاف ہوں زیر نا ف  کی عملاً حد کیا ہو گی؟

(2)ایک بو ڑھا آدمی  جس کے ہاتھ کا نپتے  ہوں خطرہ ہے کہ وہ صفائی کرتے وقت  زخم لگا بیٹھے  اس کی بابت کیا حکم ہے ؟

(3)شو گر کا مر یض ہے خدا نخواستہ صفائی  سے زخم لگا بیٹھتا ہے اس کی بابت  شرعاً کیا حکم ہو گا

(4)کتنے عرصہ  کے اندر بالو ں کی صفائی ضروری ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(1)صحیح احا دیث میں زیر ناف بالوں کی صفا ئی  کو پیدائشی سنتوں میں سے شمار  کیا گیا ہے روایا ت  میں اس کے لیے لفظ "الاستحداد(صحیح البخاری کتاب اللباس باب تقلیم الاظفار (5891) والعانۃ (5890))(لو ہے کو استعما ل کرنا ) یعنی استرا یا سیفٹی  وغیرہ  اور "العا نہ" وارد ہے ۔

٭۔امام نو وی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں "الغانۃ" سے مرا د وہ بال ہیں جو آدمی کے آلہ تناسل کے اوپر  اور اس کے گرد  ہو تے ہیں اور اسی طرح وہ بال جو عورت  کی شر مگا ہ  پر ہو تے ہیں ۔"

٭۔ابن شریج  نے کہا ۔"وہ با ل ہیں جو انسا نی حلقہ  دبر پر اگتے  ہیں ©۔امام نو وی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں ۔"اس کا ماحاصل یہ ہے کہ "قبل اور دبر "اور ان کے گرد بالوں کو مو نڈنا مستحب ہے ۔"

٭۔علامہ شو کا نی  رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے اگر " (استحداد)بمعنی "العانۃ "ہو جس طرح کہ نو وی  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے تو بایں صورت  دبر پر اگنے  والے بالوں کو منڈنے کی سنیت ثابت نہیں ہو تی  اگر چہ لو ہے سے مونڈنا حلق العا نہ سے عا م ہے جس طرح قا مو س میں ہے ۔

لیکن صحیح مسلم وغیرہ میں (استحداد)کے بجا ئے  حدیث "دس چیزیں  فطرت سے ہیں "میں حلق العانہ  کو شمار کیا گیا ہے اس سے (استحداد)

کے اس اطلا ق  کی وضا حت  ہو تی ہے  جو حدیث "پا نچ  چیزیں  فطرت  سے ہیں " میں وارد  ہے اس سے اس دعویٰ کی صداقت ظاہر نہیں ہو تی  کہ دبر  کے با ل  مو نڈ  نے سنت  ہیں یا مستحب  ہیں الایہ کو وہاں کو ئی دلیل ہو ہمیں اس بات کا علم  نہیں ہو سکا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  یا صحابہ کرا م  رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے کسی نے دبر کے با ل مو نڈے ہو ں ۔(نیل الاوطا ر1/123۔124)

اس تشریح  سے واضح ہو گیا کہ خادوں اور خصیتین وغیرہ پر مو جو د با لو ں کو صاف کرنا چاہیے البتہ ناف  کے نیچے  کا متصل  حصہ شاید اس میں شامل نہ ہو ۔

(2)بو ڑھا یا کمزور آدمی جس کے ہا تھ کا نپتے ہو ں ان کے لیے یہ ہے کہ وہ پو ڈور وغیرہ  استعمال  کر سکتے ہیں ۔ امام نو وی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کے جواز کی تصریح  کی ہے ۔

(3)شوگر کا مریض بھی پو ڈر کو استعمال  میں لا ئے امام نو وی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسی طرح بال کتر ے یا اکھا ڑے  بھی جا سکتے ہیں ۔اگرچہ افضل مونڈنا ہے

(4)زیر نا ف بالوں کی صفائی کا وقفہ چالیس دن سے زیادہ نہیں ہو نا چاہیے اس سے پہلے حسب ضرورت  صفائی ہو سکتی ہے حدیث میں ہے ۔

«ان لا نترك اكثر من اربعين ليلة»(رواه مسلم وابن ماجه)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص827

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ