سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(510) داماد سے پردہ کرنا

  • 13252
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1006

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

یہ مسئلہ شریعت  کی روسے  حل کر کے مطلع کر دیں عین نوازش ہو گی مسئلہ یہ ہے کہ میں نے اپنے داماد سے دس گیارہ سال سے پرد ہ کرایا ہوا ہے یعنی اپنی نوحیں بھاوجوں سے پردہ کرایاتھا بعد میں میرے  بیٹوں نے میری نوحوں بھا و جوں نے ہر ایک سے پردہ نہیں کیا میرے کہنے پر عمل نہیں کیا اس داماد سے پردے کی رسم قائم ہے وہ کہتے ہیں اس اکیلے سے پردہ نہیں ہونا چاہیے اور کہتے ہیں تم نے پردہ کرا یا ہے اور تم ہی کہو کہ یہ  پردہ نہ کرو میں کہتا ہوں کہ میں شریعت کے حکم سے قانون رد نہیں کر سکتا اور نہ ہی یہ میں کہتا ہوں داماد ہمارے گھر نہ آئے اور گاہے بگا ہے آتا بھی ہے  آپ یہ مسئلہ حل کر کے  مشکور فرمائیں ؟میں ان کو کہتا ہو ں کہ اگر آپ نے میرا کہنا نہ مانا  تو میں آپ سے سخت ناراض ہو ں گا شریعت کی روسے فرمائیں کہ مجھے ان کی بات ماننی  چاہیے یا ان کو میری  بات ماننی چاہیے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت سوال میں جن اشخاص  کا ذکر ہے۔ شریعت اسلامیہ کی روسے ان لو گوں سے پردہ ضروری ہے ۔سورۃ نور  کی آیت نمبر31میں اللہ عزوجل  نے جن افراد سے عورتوں کو عدم پردہ کی اجازت دی ہے مذکورہ آدمیوں کا شماران میں نہیں ہوتا لہذا ان حضرات سے پردہ کرنا واجب ہے ۔

یا د رہے  پردہ کا مفہوم قطعاًیہ نہیں کہ قطع تعلقی کا اظہار کر کے بے رخی اختیار کی جا ئے بلکہ شریعت میں مطلوب و مقصود باہمی تعلقا ت کا استحکام ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ شرعی حدود کے اندر آپس کی میل ملا قات میں تکرار واضافہ ہو تا کہ نتا ئج ثمر آور ثابت ہوں ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی صحیح میں بایں الفاظ  تنو یب قائم کی ہے ۔

«باب قیام المراۃ علی الرجال فی العرس وخدمتھم بالنفس»

پھر قصہ ابو السید السا عدی سے استدلال کیا ہے کہ عورت  مہمانوں کی خدمت کر سکتی ہے حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں ۔

«وفی الحديث جواز خدمة المراة زوجها ومن يدعوه ولا يخفيٰ ان محل ذلك عند امن الفتنة ومراعاة ما يجب عليها من الستر» (فتح الباري ٩/ ٢٥١)

یعنی"اس حدیث میں اس بات کا جواز ہے کہ عورت اپنے خاوند اور اس کے مدعو مہمانوں کی خدمت کر ے لیکن یہ اس صورت  میں ہے جب فتنہ کا ڈر نہ ہو اور عورت باقاعدہ باپردہ خدمت سر انجا م دے ۔

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص804

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ