سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(487) خطیب کا تعلیم یافتہ ہونا

  • 13228
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1244

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1)۔۔۔مسجد کی خطابت کے لیے موجود ہ زمانے میں کیا کو ئی علمی معیار ہو نا چاہیے یا نہیں ؟ایسا آدمی جو نہ تو کسی مدرسہ کا پڑھا ہو ا اور نہ ہی اس نے باقا عدہ  کسی معلم سے دین سیکھا ہو حتی کہ دنیا وی تعلیم بھی حاصل نہ کی ہو خطابت کے فرائض انجام دے سکتا ہے ؟

(2)۔۔۔ایک صاحب جو سکول میں ساتویں یا آٹھویں جما عت تک پڑھ  سکے اور غالباً انہوں نے دینی تعلیم بالکل حاصل نہیں کی ترجمہ  قرآن تک نہیں جانتے پیشہ کے اعتبا ر سے درزی (ٹیلر ماسٹر)تھے تقریباً5برس سعودی عرب میں اسی حیثیت سے ملا زمت  بھی کرتے  رہے ابتداء کچھ  عر صہ تبلیغی جما عت  کے ساتھ منسلک رہے  ہیں اس لیے  کچھ بول سکتے ہیں آج کل ایک مسجد کے خطیب بن بیٹھے ہیں کیا ایسے شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنا اور انہیں خطابت کی ذمہ داری  سونپنا درست ہے ؟جو لو گ اس کام میں ان کے ممدو معاون ہیں ان کے با رے اور خود خطیب مو صوف کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟نماز کی امامت کے لیے  پہلی شرط قرآن پاک کا زیادہ جاننا ہے کیا ایک حافظ قا ری کی مو جو دگی میں ایک جا ہل شخص کا از خو د امامت  کے لیے  آگے بڑھنا  اور امامت کا فریضہ اداکرنا درست  ہے؟

(3)۔۔۔کا فی عرصہ پہلے ایک خطیب صاحب سے یہ روایت سنی تھی کہ ایک بار حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک شخص کو وعظ کرتے سنا تو اس سے دریافت کیا کہ تم ناسخ و منسوخ کا علم جا نتے ہو؟ جوابًااس نے نفی کا ظہار کیا تو سید نا علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا :"وعظ نہ کرو خود بھی گمراہ ہو گے اور دوسروں کو بھی کرو  گے ۔" کیا یہ روایت درست ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یز ید کے با رے میں تین قسم کی آراء ہیں ۔

نا اہل لو گ خطابت  و امامت کے قطعاً حقدار نہیں صحیح حدیث میں ہے :

«اذا وسد الامر الي غير اهله فانتظر الساعة»

یعنی''معاملات جب نا اہل لوگوں کے سپرد کردیئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔''

اس کے ہم معنی اور بھی بہت سا ری روایا ت ہیں جو كتب احا دیث کی طرف مرا جعت سے بآسانی دستیا ب ہو سکتی ہیں اہل علم کے لا ئق  کہ جاہلوں  کے لیے ممدو معا ون بنیں ورنہ اس جرم میں وہ بھی شر یک  کا ر سمجھے  جا ئیں گے اہل کی مو جو دگی  میں نا اہل  کو فرا ئض  کی ادادئیگی  کے لیے آگے کرنا امانت میں خیانت ہے جو جرم عظیم ہے قرآن میں ہے :

﴿ إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُ‌كُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها...﴿٥٨﴾... سورة النساء

"اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے  اہل کے سپرد کرو۔

اہل کی مو جو دگی میں نا اہل کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھنی  چا ہیے  بصورت دیگر منتظمین  و معا ونین  حضرات سب کے سب بارگاہ الٰہی میں جو ابدہ ہوں گے  خطرہ ہے کہ کہیں نما زیں  ضائع  نہ ہو جا ئیں  پھر  علما ء کے بھی لا ئق نہیں  کہ جرم  یا گناہ  ہو تا  دیکھ کر خا موشی  اختیار  کریں قیامت کے دن  ہر آدمی  سے اس کی ذمہ داری کی بازپرس  ہو گی اللہ رب العزت ہم میں فہم دین پیدا فرما کر فرائض  کی ادائیگی  کی کما حقہ تو فیق بخشے آمین!

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول علا مہ بدر الدین زر کشی  کی کتا ب  البرہان فی علو م القرآن "میں مو جو دہے ۔ ملا حظہ ہو : (2/34)

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص772

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ