سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(432) قرآن کی اصطلاح میں شرک کی تعریف

  • 13173
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 4107

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ کی خدمت میں جناب پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب امیر مرکز الدعوۃ والارشاد کی ایک تقریر کا کچھ حصہ ارسال ہے جس میں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ قبروں پر پھول چڑھانا قبر کو سجدہ کرنا وغیرہ شرک نہیں؟متن ساتھ منسلک ہے آپ سے استفسار ہے کہ:

1۔کیا یہ موقف درست ہے؟قرآن کی اصطلاح کی  روشنی میں جو شرک کی  تعریف کی گئی ہے کیا یہ تعریف درست ہے؟

2کیا اہل کتاب مشرک نہیں ہیں؟

3۔کیا پھول چڑھانا اور قبروں کو سجدہ کرنا کسی صورت میں بھی شرک نہیں ہے؟

تقریر کامتن:

’’ ومن الذين اشركوا۔۔۔۔۔۔اور مشرکین سے کون لوگ مراد ہیں؟مشرکین کی باقاعدہ اصطلاح ہے۔اور اس اصطلاح سے کون کون مراد ہیں؟اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو اللہ کی شریعتوں کو نہیں مانتے تھے نہ وہ تورات کو نہ وہ انجیل کو اور نہ وہ ان نبیوں کو اور نہ آخرت کو مانیں نہ شریعت نہ کتاب نہ نبوت نہ آخرت جو ان کو سرے سے مانتے ہی نہیں تھے ان کو قرآن مجید نے کیا کہا؟مشرکین!یہ ہے مشرکین کی اصطلاح۔۔۔یہاں میں ایک بات  اور بھی واضح کردوں۔بعض ہمارے بھائیوں کو ہوگی تو تکلیف! لیکن نئی بات کچھ پریشان کن بھی ہوتی ہے۔لیکن بات سمجھنے کی ہے ہمارے ہاں آجکل مشرکین کی اصطلاح کس کے لئے استعمال ہوتی ہے؟کلمہ گو مسلمانوں جو قبروں ک اوپر پھول  چڑھانے لگ جائیں یا ایسے وہاں جناب! دیئے جلانے لگ جائیں کوئی غلط کوئی سجدہ کردے ان کو کیا کہتے ہیں؟کہ ہم  عام طور پر یہ کہتے ہیں کہ یہ جی مشرکین ہیں۔میرے بھائیو! یہ مشرکین کی اصطلاح میں قرآن مجید کے اعتبار سے نہیں آئے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے عقیدوں میں خرابیاں ہیں۔ ان کے لئے قرآن مجید میں اصطلاح فاسق کی موجود ہے۔ان کے لئے اور مختلف قسم کی اصطلاحات قرآن مجید کے اندر موجود ہیں۔قرآن میں مشرکین ان کو کہا گیا ہے جو نہ نبوت کو مانتے تھے نہ آخرت کو مانتے تھے نہ شریعت کو مانتے تھے۔ا ن کو اہل کتاب کے مقابلے میں مشرکین کہا  گیا ہے اور اس آیت میں بھی ان دونوں کا زکر ہے۔فرمایا:

﴿وَلَتَسمَعُنَّ مِنَ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ مِن قَبلِكُم وَمِنَ الَّذينَ أَشرَ‌كوا أَذًى كَثيرً‌ا... ﴿١٨٦﴾...سورة آل عمران


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوالات کے مشترکہ جواب بالاختصار ملاحظہ فرمائیں:

یہ اصطلاح غیر درست ہے۔کیونکہ قرآن نے یہودونصاریٰ کی طرف بھی ان اعمال مذکورہ کی نسبت کی ہے۔اور انہیں  مشرک بھی کہا ہے۔بطور مثال ملاحظہ ہو:(التوبہ 29۔30۔31اورالمائدہ :72۔73)

لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عام مشرکوں کی نسبت بعض مسائل میں قرآن کریم نے ان سے امتیازی سلوک کیا ہے۔اس بناء پرقرآن کریم کے  کئی ایک مقامات میں ان کو مشرکوں کے مقابلہ میں کتابی نسبت سے یاد کیا گیا ہے۔  تاہم صرف کتابی نسبت سے اس دھوکے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔کہ یہ مشرک نہیں بلاشبہ یہ بھی مشرک ہیں جس طرح قرآنی آیات میں مصرح ہے۔

غالباً اسی وجہ سے میرے عزیز تلمیذ پروفیسر حافظ محمد سعید حفظہ اللہ کو غلطی لگ گئی کہ وہ مسلمان جن کی نسبت قرآن واسلام کی طرف ہے۔ وہ بھی مشرک نہیں ہوسکتے چاہے جتنے مرضی اعمال  شرکیہ کے مرتکب ہوں۔شاید اسی نظریے کی بناء پر جہاد کشمیر میں وہ ایک قبوری تنظیم سے متعاون ہیں جس کا سلفی تنظیم سے   ذہنی بُعد ہے۔

بھلا کون نہیں جانتا ہےکہ    غیر اللہ  کے نام پر نذرونیاز اور قبروں پر سجدہ  ریز ہونا شرک ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل إِنَّ صَلاتى وَنُسُكى وَمَحياىَ وَمَماتى لِلَّهِ رَ‌بِّ العـٰلَمينَ ﴿١٦٢ لا شَر‌يكَ لَهُ ۖ وَبِذ‌ٰلِكَ أُمِر‌تُ وَأَنا۠ أَوَّلُ المُسلِمينَ ﴿١٦٣﴾... سورة الانعام

‘‘(اے پیغمبر!)آپ کہہ دیں کہ میری نماز اورمیری قربانی اورمیراجینااورمیرا مرنا،سب خالص اللہ ہی کے لئےہے جو سارے جہان کا مالک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اورمجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اورمیں سب سے پہلے فرمان  بردارہوں۔’’

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے۔کہ سجدہ اور ذبح عبادت ہے اور یہ حق غیر اللہ کو دینا شرک ہے۔حدیث میں ہے۔

«لعن رسول الله صلي الله عليه وسلم زائرات القبور والمتخذين عليها المساجد والسرج» انظر الرقم المسلسل (٥١٩)(رواه ابودائود والترمذی والنسائی)

مرعاة المفاتيح(١/٤٨٦) میں ہے:

«وفيه رد صريح علي القبورين الذين يبنون القباب علي القبور ويسجدون اليها ويسرجون عليها ويضعون الزهور والرياحين عليها  تكريما وتعظيما لاصحابها» (١/٤٨٦)

اس حدیث میں واضح  تردید ہے۔ان قبوریوں کی جو جو قبروں پر قبے بناتے ان کی طرف سجدے کرتے ان پر چراغ جلاتے اور ان پر تعظیم واحترام کی خاطر پھول اور خوشبو رکھتے ہیں۔

المرعاۃ 1/224 میں ہے:'' اوریہ قبوری لوگ جو قبروں پر پھول ڈالتے ہیں اور درخت لگاتے ہیں۔ اور غلاف چڑھاتے ہیں۔پھر ان پر خوشبو بکھیرتے ہیں اور ان پر چراغ جلاتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بدعت اور گمراہی کے کام ہیں۔''

لہذا موصوف کو میرا مشورہ ہے کہ اپنے غلط موقف پر دلائل دینے اور اس کی توجیہ وتاویل کرنے کی بجائے اس سے رجوع کریں اسی میں آپ کی عظمت وشان ہےان شاء اللہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا مشہور مقولہ ہے:

«مراجعة الحق خير من التمادي في الباطل»

'' باطل پر اصرار سے بہتر ہے کہ انسان حق کی طرف ر جوع کرے۔''(اعلام الموقعین)

اللہ رب العزت سب کو اخلاص کی توفیق بخشے آمین!

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص729

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ