سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(395) جانوروں کی نسل کشی کرنا

  • 13135
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2780

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جانوروں کی مصنوعی  نسل کی کشی جائز ہے یا ناجائز ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جانوروں کی نسل کشی کا بظاہر جواز  ہے بشرطیکہ  دوسری جنس کے سلسلہ  نسل کو کلی طور پر نیست و نابود یا صریح نقصان پہنچانا مقصود  نہ ہو قرآن مجید میں اللہ تعا لیٰ نے خچر کاتذکرہ بطور امتنان واحسان فرمایا ہے ۔

﴿وَالخَيلَ وَالبِغالَ وَالحَميرَ‌ لِتَر‌كَبوها وَزينَةً... ﴿٨﴾... سورة النحل

یعنی "گھوڑے خچر گدھے کی سواری کے لیے اور تمہاری زینت کے لیے ہیں

یعنی گھوڑوں ،خچروں اور گدھوں کی پیدائش کا مقصد ہی زینت اور سواری ہے ۔پھریہ بات معروف ہے کہ خچر کی اپنی کو ئی نسل نہیں وہ محض گدھے  اور گھوڑی کے ملاپ  سے معرض وجود  میں آتا ہے ۔

امام طحاوی  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ نے متعدد احادیث بیان فرمائی ہیں ۔جن میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر پر سواری کرنے کی تصریح موجود ہے ۔

مندرجہ بالادلائل سے معلوم  ہوا کہ گدھے اور گھوڑے کے درمیا ن  اختلاط  ممنوع  نہیں  کیوں  کہ اگر ممنوع  ہوتا تو خچر  پر سواری بھی جائز نہ ہوتی  جب سواری جائز  ہے تو یہ فعل  ممنوع  نہیں ۔

باقی رہیں وہ حدیثیں جن سے اس کی ممانعت  ظاہر  ہوتی  ہے جیسے  ابوداؤد کی وہ روایت  جس میں حضرت علی بن ابی طالب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو خچر ہدیہ  میں ملا آپ نے اس پرسواری کی پھر علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا کہ اگر ہم نے گدھے اور گھوڑی کی جفتی  کرائی ہوتی تواسی طرح ہمارے پاس بھی خچر ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :نادان لوگ ایسا کرتے ہیں ۔

«سنن ابی دائود باب فی کراھية الحمر تنزي علي الخيل»

نیز "شرح معافی الآثار"میں ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (اہل بیت کو)دوسروں سے تین باتوں میں ممتاز بتایا اسباغ الوضوء(اچھی طرح سے وضو کرنا) صدقہ کامال نہ کھا نا اور گھوڑی اور گدھے کےدرمیان جفتی نہ کرا نا۔علامہ عظیم آبادی فرماتے ہیں ان کاجواب تین طریقے سے دیا گیا ہے ۔

اولاً

یہ کہ علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت میں ممانعت  نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ وہ لو گ کرتے ہیں جو بے خبر ہیں اس حدیث کامطلب  یہ ہے کہ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو بے علم اور جا ہل ہیں اور یہ کہ یہ کام اہل علم اور سادات کانہیں کہ وہ اس کام  میں وقت صرف کریں اسی معنی میں عبداللہ بن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت  بیان ہوئی یعنی یہ ممانعت کاحکم صرف ہاشمیوں کے ساتھ خاص ہے دوسرے  تمام لوگ  اس حکم  میں شامل نہیں یعنی انہیں رخصت ہے اہل بیت کوصرف تین چیزوں  میں دوسروں سے ممتاز کیا گیا ہے ایک اسباغ الوضوءدوسرے یہ کہ صدقہ نہیں کھا تے اور گھوڑے گدھے میں جفتی  نہیں کراتے ۔

یہ حکم  ہاشمیوں کے لیے ان کے شرف شان کی وجہ سے ہے کسی معصیت کی وجہ سے یہ تخصیص نہیں اگر  اس میں معصیت  کودخل ہوتا تو ہاشمیوں کی تخصیص  نہ ہوتی کہ اوامرونواہی میں امت محمد یہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے افراد سب برابر ہیں لہذا معلوم ہوا کہ گھوڑے اور گدھے کی جفتی نہ کرانا اور اسباغ الوضوءنہ کرنا ہاشمیوں کی عالی شان کے خلاف ہے البتہ  غیر ہاشمی اس حکم سے الگ  ہیں ہاشمیوں کے لیے ان تینوں باتوں کاحکم ان کی شان  کی وجہ سے باقی  ہے اور یہی  ہمارا مدعا ہے ۔

ثانياً

یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قول "یہ کا م وہ کرتے ہیں جو بے علم ہیں "کامطلب یہ ہے کہ جو یہ کام  کرتے ہیں وہ نہیں  جانتے  کہ گھوڑوں کے استعمال  میں کتنا اجر ہے جو خچروں وغیرہ کے استعمال  میں نہیں  اگر انہیں اس کےصحیح اجر  کا پتہ ہوتا تو کبھی بھی خچروں کی طرف راغب  نہ ہوتے  گھوڑوں  سے لگاؤ اور اس سے رغبت  سے متعلق  بہ کثرت  حدیثیں آئی ہیں ان میں ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اور ابن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی یہ دو حدیثیں بڑی مشہور ہیں ۔جو صحاح ستہ  "موجود ہیں ۔

ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھوڑے سے متعلق پوچھا گیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا "کہ یہ تین طرح کے لوگوں کےلیے ہیں ۔کسی کے لیے باعث اجر ہیں اور کسی کےلیے باعث زینت اور کسی کے لیے وبال جان اور ہلاکت  خیز ۔پھر لوگوں نے گدھے سے متعلق پوچھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : گدھے کے فائدے سے متعلق اس آیت کے علاوہ مجھ  پر اور کچھ  ناز ل نہیں ہوا ۔

﴿فَمَن يَعمَل مِثقالَ ذَرَّ‌ةٍ خَيرً‌ا يَرَ‌هُ ﴿٧ وَمَن يَعمَل مِثقالَ ذَرَّ‌ةٍ شَرًّ‌ا يَرَ‌هُ ﴿٨﴾... سورة الزلزال

"جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی وہ اس کااجر پائے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی اسے بھی دیکھےگا ۔"( صحيح البخاري كتاب الجهاد باب الخيل ثلاثة (2860) شرح معاني الآثار (٣/273)

امام طحاوی  رحمۃ اللہ علیہ  شرح معانی الآثار "میں لکھتے ہیں :"اگر کو ئی کہے  کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قول کاکیا مطلب ہے کہ "نادان ایسا کرتے ہیں ۔"تواس کے جواب میں کہا جائے گا کہ علماء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ گھوڑے کے حصول اور اس کےاستعمال میں جو اجراور فائدہ ہے وہ خچر میں نہیں اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ گھوڑے کے فوائد  بہت ہیں بانسبت خچر کے جوگدھے اور گھوڑے کے ملاپ سے نادان لوگ حاصل کرتے ہیں گویا وہ ایسی چیز پر توجہ نہیں کرتے جس میں اجر ہے بلکہ ایسی چیزوں پر توجہ دیتے ہیں جس میں اجر نہیں ۔

ثالثاً ً

یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانےمیں بنی ہاشم کے پاس گھوڑے بہت کم تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تاکہ خچر کے مقا بلے  میں گھوڑے کی نسل پر توجہ  دی جائے اور اس طرح ان کی افزائش ہو۔

امام طحاوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے شرح معانی الآثار "میں عبیداللہ بن عبد اللہ کےواسطے سے حضرت ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت  بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمارے  لیے (اہل بیت کےلیے تین باتیں خاص کردی ہیں اول یہ کہ ہم صدقہ نہ کھا ئیں  اچھی طرح وضوء کریں اور گھوڑے اور گدھے میں جفتی نہ کرائیں راوی کہتے ہیں کہ میری عبداللہ بن حسن سے ملاقات ہوئی آپ بیت اللہ کاطواف فرما رہے تھے میں نےان سے باتیں کیں انہوں نےاس کی تصدیق کی اور کہا بنی ہاشم میں گھوڑے بہت کم تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے گھوڑے کی نسل بڑھے ۔( شرح معاني الاثار (٣/٢٧٥)عبداللہ بن حسن  کی توجیہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے اور گدھے کی جفتی کرانے کوحرام نہیں قرار دیاتھا بلکہ گھوڑوں کی قلت کی وجہ سے یہ بات کہی تھی پھر جب یہ علت دور ہوگئی تو اس سے کو ئی چیز مانع نہ رہی نیز یہ کہ اس عمل سے صرف بنی ہاشم کوروکا گیا ہے یعنی دوسروں کےلیے یہ عمل مباح ہے (فتاوی عظیم آبادی ص326۔330)

(2)سابقہ دلائل سے جب مصنوعی نسل کشی کاجواز نکل آیا تو انجکشن کے ذریعے جانور کوحاملہ کرنے  کاجواز بھی خود بخود ثابت ہوگیا ۔(1)کیونکہ ہردو صورتوں میں مقصود مادہ تولید کی منتقلی  ہے چاہے غیر معروف طریقہ سے ہی کیوں نہ ہو ۔

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص697

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ