سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(383) حلال جانور کو حرام اشیاء کھلانا

  • 13123
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2954

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مرغی خانوں میں جو مرغیاں رکھی جا تی ہیں خصوصاً  برائلروغیرہ ان کی خوراک میں تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دم مسفوح وافر مقدار میں ہے اور کہا جاتا ہے کہ اپریشن کاخون بھی ملایاجاتا ہے اور "میتۃ"کاگوشت بھی جبکہ احادیث مبارکہ میں "جلالہ "(گندگی کھانے والاجانور)کے کھانے کی ممانعت ہے اور دم مسفوح اور" میتۃ"کے متعلق حرمت کی نص وارد ہے توجس جانور کی نشو ونما ہی حرام سے ہو اس کے متعلق  کتا ب و سنت میں کھا نے وغیرہ کے متعلق  کیا حکم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرغیوں کی خوراک کوحرام ملاوٹ سے تیارکرنا درست فعل نہیں جس طرح بذات خود انسان کے لائق نہیں کہ اپنے استعمال کی خوارک میں حرام کی آمیزش کرے اس طرح جانوروں کو بھی حرام کھا نے کے ارتکاب سے بچانا چاہیے اگرچہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے مکلف نہیں بالخصوص وہ جانور جوکل اس کی اپنی ہی خوراک  بننے والے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

«نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن الجلالة ان يوكل لحمها او  يشر ب لبنها»(رواه ابن شيبة بسند حسن)

یعنی " حضرت جابر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاست کھانے والے جانور سے منع فرمایا کہ اس کا گوشت کھا یا  جا ئے  یا دودھ پیا جا ئے ۔"اور سنن ابودؤداور نسائی میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی  ہے :

«نهيٰ رسول الله صلي الله عليه وسلم خيبر عن لحوم الحمر الاهلية وعن الجلالة عن ركوبها واكلها»(وسنده حسن)

یعنی"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خیبر کے روز گھریلو گدھے کے گوشت اور گندگی کھانے والے جانورپر سواری اور اس کے گوشت کے کھا نے سے منع  فرمایا ۔"

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  لفظ "الجلالۃ"کی تعریف میں رقمطراز ہیں :

«والجلالة عبارة عن دابة التي تاكل الجلة بكمر الجيم والتشديد وهي السعر»

یعنی" جلالہ کااطلاق گندگی کھا نے والے جانو ر پر ہے ۔"

اور ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ نےدعویٰ  کیا ہے کہ لفظ "الجلالۃ"چوپائیوں کے ساتھ مخصوص ہے لیکن  معروف بات یہ ہے کہ اس کا اطلاق عام ہے ابن ابی شیبہ میں بسندصحیح  حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے منقول ہے کہ وہ گندگی  کھانے والی مرغی کو تین راتیں باندھ لیتے تھے  دوسری طرف امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ اور امام لیث  رحمۃ اللہ علیہ  سے منقول ہے کہ گندگی کھانے والی مرغی وغیرہ کے کھانے کا کو ئی حرج  نہیں  ممانعت توصرف نفرت دلانے کے طور پروارد ہے اور شوافع نے علی الاطلاق  بیان کیا ہے کہ کرا ہت  تو اس گندگی کھانے والے  جا نو ر  کی ہے جس کے گوشت کا ذائقہ  گندگی  کھا نے کی وجہ سے تبدیل ہوچکا ہو اور ایک وجہ یہ ہے کہ جب کثرت  سے گندگی  استعمال  کرے  ان میں سے اکثر نے اس بات کو تر جیح دی ہے کہ یہ کراہت  تنزیہی ہے  اور حضرت ابو موسیٰ اشعری  رحمۃ اللہ علیہ  کاقصہ جو صحیح بخاری  میں لحم الدجاج کے تحت وارد ہے اس کا مقتضی ٰ یہی ہے ّانتھی بتصرف۔

حاصل اس کا یہ ہے زہدم  جرمی کا کہنا ہے  کہ ہم ابو موسیٰ کی مجلس  میں تھے ان کے پاس کھا نا لا یا گیا اس میں مرغی کا گو شت تھا تو ایک شخص نے کھانے سے انکا ر کر دیا اس نے کہا  میں نے اسے گندگی  کھا تے دیکھا تھا  مجھے نفرت ہے تو جواباًموسیٰ نے کہا میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو مرغی کا گوشت کھا تے ہو ئے  دیکھا ہے مقصد ان کا یہ ہے کہ مرغی "جلالہ"میں شامل نہیں یایہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک کو گندگی کھا تے ہو ئے دیکھنے سے لازم نہیں کہ سب مرغیاں اسی طرح کی ہوں ظاہر ہے پہلا معنی زیادہ واضح معلوم ہوتاہے اسی بناء پر ہما رے ۔

شیخ محدث  روپڑی  رحمۃ اللہ علیہ  نے "فتاوی اہل حدیث " میں مرغی کو "جلالہ"میں شامل ہی نہیں کیا اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کا معدہ اتنامضبوط بنایا ہے کہ اس میں گندگی  کا اثر باقی رہتا ہی نہیں  شیشہ  تک کو ہضم کر جا تی ہے ۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  فرما تے ہیں ۔

«وفيه جواز اكل الدجاج الانسية ووحشية وهو بالاتفاق الا عن بعض المتعمقين علي سبيل الورع الا ان بعضهم استثنيٰ الجلالة وهي ما تاكل الاقزار وظاهر صنيع ابي موسيٰ انه لم يبال بذلك» (فتح الباري ٩/٦٤٨)

چند سطور بعد فرماتے ہیں :

«والمعتبر في جواز اكل الجلالة زوال رائحة النجاسة بعد تعلف بالشئي الطاهر علي الصحيح»

یعنی"گندگی   کھانے والے جانور کے بارے میں قابل اعتبار بات یہ ہے کہ چارہ سے نجا ست کا اثر زائل ہونے کی صورت میں اس کا گو شت کھا یا جاسکتا ہے ۔"حال یہ ہےکہ بظاہر حضرت ابوموسیٰ اشعری رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی بناء پر مرغی کے گوشت کا کھا نا علی الاطلا ق جائز ہے ۔

تاہم اس کے منہ میں خوراک  کی صورت میں حرام ڈالنا بہر صورت قابل مذمت فعل ہے جس سے اجتناب ضروری ہے ہاں البتہ اگر کسی جانور کے بارے میں یہ بات ثابت ہوجائے کہ نجا ست اس میں مؤثر ہوچکی ہے تو بایں صورت  جب تک چارہ کھلا کر اس شبہ کوزائل  نہ کیا جائے اس وقت تک اس كا گوشت دودھ اور اس  پر سواری کرنا ناجائز ہے بعض اہل علم نے بیان کیا ہے کہ اگر کسی بکری کوکتیا کا دودھ پلا دیا جا ئے تو اس صورت میں جب تک چارہ سے دودھ کا اثر زائل نہیں ہوجاتا یہ "جلالہ "کے حکم میں رہے گی باقی رہا یہ مسئلہ کہ نجا ست کا اثر کتنے روز میں زائل ہوتا ہے؟اس بارے میں جانور وں کے اعتبار سے اہل علم کے مختلف  اقوال ہیں مثلاً پر ندے اور مرغی کوتین دن محبوس رکھا جائے اورگائے کو چالیس روز وغیرہ ۔(المغنی 11۔72)

المختصر طاہر چارہ سے جب نجا ست کے ازالہ کا ظن غالب حاصل ہو تو جانور کوذبح کیا جاسکتا ہے

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص687

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ