سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(344) کیا میلاد اللہ نے بھی منایا ہے ؟

  • 13088
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1562

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(الف) کیا میلاد خود اللہ تعالیٰ نے منایا ہے؟بریلوی مولوی حضرات کہتے ہیں کہ قرآن حکیم میں ہے کہ  یحییٰ  علیہ السلام  کے یوم ولادت کے بارے میں اللہ جل مجدہ کا سورہ مریم میں ارشاد ہے:'' ان پر سلام ہو جس دن وہ  پیداہوئے۔''

(ب) امام جلا ل الدین سیوطی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ''الحاوی للفتاویٰ'' میں ایک باب '' حسن المقصد فی عمل المولد'' کے نام سے رقم کیا ہے۔جس میں انہوں نے اس بات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود اپنا میلا دمنایا۔اس لہاظ سے یہ سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہے۔اما م سیوطی  رحمۃ اللہ علیہ  ایک روایت کے حوالے میں فرماتے ہیں کہ مدنی دور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے بکرے ذبح کرکے  فقراء ومساکین کو کھلائے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنا عقیقہ کیا تھا۔امام صاحب خود فرماتے ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کا عقیقہ ان کے دادا عبد المطلب کرچکے تھے۔اور عقیقہ دوسری مرتبہ نہیں تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ صرف اسی  خوشی میں کام کیا کہ اللہ نے مجھے رحمۃ اللعالمین بنایا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(الف) میلا د منانا  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے قطعاً ثابت نہیں لہذا یہ بدعت ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

«من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد» صحيح البخاري كتاب الصلح باب اذا اصطلحوا علي صلح جور فالصلح مردود (٢٦٩٧) (بخاری)

یعنی " جو  دین  میں نیا کا م  کر تا ہے وہ  مردود ہے ۔''

سلام کا معنی میلاد منانا آج تک کسی موثوق بہ مفسر نے نہیں کیا۔یہ صرف اہل بدعت کی اختراعی ایجاد ہے﴿مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ﴾

(ب) علامہ سیوطی کا رسالہ بنام:''حسن المقصد في عمل المولد’’(الحاوي للفتاويٰ (١/٢٩٢)اس وقت میرے زیر نظر ہے۔ اس کے ابتدائیہ میں صاف موصوف نے اس بات کو تسلیم کیا ہے۔کے میلاد کا عمل بدعت حسنہ ہے۔جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ شریعت میں بدعت حسنہ کا کوئی وجود ہی نہیں۔ثابت  شدہ روایات میں ہے«كل بدعة ضلالة»(الرقم المسلسل 90)یعنی'' ہر بدعت گمراہی ہے۔''

اوراس کا موجد  صاحب اربل الملک المظفر ابو سعید کو کبریٰ بن زین الدین بن علی کو قراردیا ہے۔جو ساتویں صدی ہجری کا بادشاہ تھا۔اس میں مصنف نے بذات خود اس بات کو مان لیا ہے۔کہ عمل ہذا متاخر زمانہ کی پیداوار ہے۔جو کسی صورت بھی امت مسلمہ کے لئے قابل حجت نہیں۔پھر انہوں نے علامہ فاکہانی مالکی کا رسالہ ''المولد في الكلام علي عمل المولد’’کو نقل کرکے اپنی صوابدید کے مطابق حرف بحرف اس کا جواب دیا ہے۔اس ضمن میں موصوف نے پوری سعی کی ہے کہ عمل ہذا شریعت سے   ثابت کیا جائے۔زیادہ  تر دو دلیلوں پر انہوں نے زور دیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوموار کے دن روزہ کے بارے میں  دریافت کیا گیا تو فرمایا:

«ذلك يوم ولدت فيه» صحيح مسلم كتاب الصيام باب استحباب صيام ثلاثة ايام(٢٧٤٧)

اور دوسری روایت بحوالہ بیہقی انس سے مروی ہے:

«ان النبي صلي الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة» ضعفه ابن حجر مختصر زوائد مسند البزار (1/501)لابن حجر وقال :انفرد به عبد الله بن محرر وهو ضعيف جدا وفي التقريب (٣٥٩٨) مشكل الاخيار (٦/٤٣٥)(٤٥٢٨)

صحیح مسلم کی  روایت میں سوموار کے دن ولادت باسعادت کے ساتھ بعثت اور نزول کتاب کابھی زکر ہے۔(8/51۔52)

سوموار کے روز کا نفلی روزہ بطور تشکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رکھا ہے۔ہمیں بھی اسی انداز پراقتدائی پہلو اختیار کرنا چاہیے۔لیکن یار لوگوں نے اتباع کے بجائے ابتداع کو ترجیح دی۔سال کے عشرات سومواروں کو بھلا کر من مانی خوشی کے لئے انتخاب صرف 12 ربیع الاول کا کرلیا جس کا ادنیٰ اشارہ بھی اس حدیث میں موجود نہیں اور مصنف کی دوسری دلیل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعد از نبوت اپنا عقیقہ کیا ہے۔اس پر یہ کہنا کہ عقیقہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے داداعبدا لمطلب نے کردیا تھا۔آپ نے جو کچھ کیا ہے۔در اصل اپن رحمۃ اللعالمین  بننے کی خوشی میں کیا پر کیا ہے۔یہ بھی محض دعویٰ بلادلیل ہے۔

اولاً ضروری ہے کہ اس حدیث کی اسنادی حیثیت کو پرکھا جائےکیونکہ فرع کی بناء اصل پر ہوتی ہے۔کہاجاتا ہے:

''اثبت العرش ثم النقش''

یعنی''پہلے تخت ثابت ہوکر  پھر نقش ونگار کرنا۔''

اس حدیث کے بارے میں علامہ نووی  رحمۃ اللہ علیہ  ''شرح المہذب'' میں فرماتے ہیں۔:

’’ هذا حديث باطل’’ (یعنی یہ حدیث باطل ہے)

اوربیہقی نے کہا منکر ہے۔اس میں عبدا للہ بن محرر راوی ہے۔وہ سخت ضعیف ہے۔ملاحظہ ہو:(التلخیص الجبیر 4/147)(لہذا  روایت ہذا سے کسی قسم کا استدلال لینا قطعاً درست نہیں۔)

علامہ سیوطی  رحمۃ اللہ علیہ  کے مناسب نہیں تھا۔ کہ بلا تحقیق صحت روایت ہذا سے استدلال کرتے ہیں۔ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ حاطب اللیل ہیں یعنی وطب ریابس کے جامع ہیں۔لہذا ایک محقق مستدل کے لئے ضروری ہے کہ پہلے بیان کردہ ان کی مرویات کو معیار محدثین پر پرکھے پھر استدلال کا سوچے ورنہ ڈر ہے کہ کہیں«من کذب علی» کے زمرہ میں شامل نہ ہوجائے۔

نیز اہل اسلام کا اجماعی مسئلہ ہے۔کہ دین اسلام میں دو عیدوں کا تصور ہے تیسری کا کوئی وجود نہیں۔

احادیث کی کتابوں کو اٹھا کردیکھیں تراجم وابواب محدثین میں صرف دوعیدیں نظر آئیں گی۔آج کے دور میں تیسری عید میلاد کا اضافہ صرف اہل بدعت کا کارنامہ ہے۔اللہ کے دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔پھر ستم ظریفی یہ کہ اس کو بطور تصور اسلام کے سکولوں کی کتابوں میں رائج کردیا  گیا ہے۔مسلمانوں کی پست حالت پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔حقیقت حال یہ ہے :

﴿يَعلَمونَ ظـٰهِرً‌ا مِنَ الحَيو‌ٰةِ الدُّنيا وَهُم عَنِ الءاخِرَ‌ةِ هُم غـٰفِلونَ ﴿٧﴾... سورة الروم

دنیاوی اعتبار سے بہت سمجھدار لیکن دینی اور اخروی امور میں معاملہ فہمی سے عاری:

﴿أَفَلا يَتَدَبَّر‌ونَ القُر‌ءانَ أَم عَلىٰ قُلوبٍ أَقفالُها ﴿٢٤﴾... سورة محمد

 بھلا یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتےیا(ان کے ) دلوں پرقفل لگ رہے ہیں۔''

اہل بدعت نے اسلام کے نام پر اپنی تحریروں اور تقریروں میں تحریفات کے وہ گل کھلائے ہیں۔ جنھیں دیکھ کر آج یہودونصاریٰ بھی شرمسار ہیں۔ کہ کیا واقعی یہی لوگ ہمیں تحریفات میں مورد الزام ٹھہراتے تھے۔اللہ رب العزت جملہ مسلمانوں کو صائب فکر کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین!

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص624

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ