سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(86) درود اور سلام میں فرق

  • 12812
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 5182

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آیت مبارکہ :

﴿إِنَّ اللَّـهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿٥٦﴾... سورة الاحزاب

'' بے شک میں (اللہ) اور میرے فرشتے درود اور سلام نبی  پر بھیجتے ہیں۔اے ایمان والوں تم درود اور سلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر بھیجو۔''

بعض لوگ درود کے متعلق کہتے ہیں کہ آپ لوگ درود تو پڑھتے ہیں مگر سلام نہیں پڑھتے جب کہ قرآن مجید میں درود اور سلام الگ الگ زکر ہے۔ درود جو بھی ہے درود کو وہ مانتے ہیں۔ مگر سلام کے متعلق وضاحت فرمائیں کہ سلام پڑھا  جائے تو کونسا سلام پڑھا جائے اور کیسے اور کب پڑھا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس طرح ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھنے کے قائل ہیں اسی طرح سلام کے بھی قائل ہیں۔ہر نماز کے تشہد میں درود سے پہلے ہر مسلمان   آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات گرامی پرسلام بھی پڑھتا ہے اسی طرح اہل الحدیث کا جملہ کتب احادیث میں یہ طریقہ کار ہے کہ ہر حدیث کے شروع میں بالخصوص جہاں ''قال قال رسول اللہ   ( صلی اللہ علیہ وسلم )'' تحریر ہوتا ہے وہاں ''صلواۃ '' کے ساتھ''سلام '' ضرور لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بلکہ کئی ایک ائمہ ''صلواۃ وسلام'' کے ساتھ '' وآلہ'' کے اضافہ کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔پھر اہل حدیث کےسرخیل امام ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے مستقل اس موضوع پر کتاب تصنیف کی ہے اس میں بہ دلائل ثابت کیا ہے کہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات گرامی پر''صلواۃ'' پڑھا جاتا ہے۔وہاں ساتھ ''سلام'' کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔کتاب کامکمل نام یوں ہے: ''جلاء الافهام في الصلاة والسلام علي خير الانام ’’ اور امام سخاوی  رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب ''القول البدیع'' کا موضوع سخن بھی یہی ہے ان ائمہ کرام نے بڑے واضح دلائل سے احادیث نبویہ کی روشنی میں اس امر کو ثابت کیا ہے کہ کن کن مواقع پر''صلواۃ وسلام'' کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔

لہذا اہل حدیث پر بریلوی حضرات کی یہ الزام تراشی کہ یہ صرف ''صلوۃ'' کے قائل ہیں۔''سلام'' کے نہیں محض بہتان ہے۔ بلکہ حنفیہ کےنزدیک تو نماز میں نہ تشہد ضروری ہے اور نہ درود وسلام(وقال اصحابنا هي (يعني درود) فرض في العمر اما في الصلاة اوفي خارجها انتهي ... ہمارے اصحاب یعنی علماء حنفیہ کہتے ہیں: تمام عمر میں ایک مرتبہ درود پڑھنا فرض ہے چاہے وہ نماز میں پڑھ لے یا نماز سے باہر رد المختار علي ادر المختار المعروف فتاوي شامي (١/٣٨...٣٨٣) ط مكتبة رشيديه كوئته.) صرف تشہد میں بیٹھنا ہی کافی ہے۔  جبکہ صحیح احادیث سے ان کا التزام ضروری معلوم ہوتا ہے۔''سلام'' میں ''السلام علی رسول اللہ '' یا'' السلام علی النبی '' یا'' صلی اللہ علیہ وسلم '' بلا صیغہ خطاب اطلاق کاجواز ہے۔

صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین   تشہد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات طیبہ میں بصیغہ ءخطاب ''السلام علیک ایھا النبی '' پڑھا کرتے تھے۔لیکن بعد میں اسے ترک کرکے ''السلام علی النبی'' اختیار  کرلیا تھا۔( صحیح البخاری کتاب الاستذان باب الخذ  بالیدین (6265)) (صفۃ  صلوۃ النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ص:139)

ہاں البتہ بطور حکایت صیغہ خطاب یانداء کا علمی الاطلاق جواز ہے جس طرح کہ کتاب وسنت میں اس کی متعدد امثلہ موجود ہیں۔ اسی بناء پرجمہور اہل علم ''التحیات'' کے'' سلام'' میں صیغہ ء خطاب ونداء کے قائل ہیں۔یاد رہے بعض مقامات پر محض بطور حکم بھی اس کااستعمال ہے جس طرح قرآن میں ہے:

﴿قُل يـٰأَيُّهَا الكـٰفِر‌ونَ ﴿١﴾... سورة الكافرون

یا اہل قبور کو حرف خطاب اور نداء سے پکارا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن صیغہء خطاب یانداء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے حاضر وناظر ہونے کے اعتقاد سے پڑھا جائے جس  طرح کہ بریلوی عقائد واعمال سے ظاہر ہے تو یہ بلاشبہ شرک ہے۔کیونکہ عقیدہ ''اللهم الحقني بالرفيق الاعليٰ’’ کے منافی ہے۔

اما م ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  نے ''جلاء الافہام'' میں ''صلوۃ وسلام'' پڑھنے کے چالیس سے زائد مقامات زکر کئے ہیں۔بالجماع بعض امور کی فہرست بحوالہ فتح الباری مرعاۃ المفاتیح میں بھی موجود ہے۔(1/674) مثلا تشہد  (صحیح البخاری کتاب الاذان باب يتخير من الدعا بعد التشهد وليس بواجب (٨٣٥)نماز جنازہ (الحاكم ( ١/360) رقم (١٣٣١) وصححه علي شرط الشيخين ووافقه الذهبي عبد الرزاق (٣/٤٨٩)مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت (صححه الالباني صحيح ابي دائود كتاب الصلاة باب ما يقول الرجل عند دخوله المسجد (٤٦٥)وغیرہ وغیرہ۔

اس سلسلہ میں موضوع سے متعلق کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں تو بیش بہا فوائد حاصل ہوں گے ۔ان شاء اللہ

پھر اخیر میں یہ بھی یا درہے کہ سائل نے قرآنی آیت کے ترجمے میں درود کے علاوہ '' سلام'' کی نسبت  بھی الله اور فرشتوں کی طرف کردی ہے ۔یہ

آیت میں''سلام'' کی نسبت صرف مومنوں کی طرف ہے البتہ درود میں اشتراک ہے۔

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص263

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ