سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(71) قیامت کے دن ہاتھ پاؤں کا گواہی دینا

  • 12794
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 3341

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں سے پوچھے گا کہ تم نے فلاں جرم کیا تھا۔ تو وہ شخص انکار کردے گا۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کی زبان کو بندکردے گا۔ اور ہاتھ پاؤں بولنے لگیں گے سوال یہ ہے کہ ہاتھ پاؤں کس کے خلاف گواہی دیں گے۔کیوں کہ وہ خود مجرم ہیں۔اگر روح کے خلاف  گواہی دیں گے تو روح کا تو کوئی حقیقی جسم نہیں روح تو حکم الٰہی ہے جیسے : روح من امر ربی'' یعنی عذاب کس کو ہوگا اور گواہی کس کے خلاف دیں گے؟

علمائے کرام کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو  کچھ لکھا ہے وہی ہوگا یہ بھی خدا نے لکھ دیا ہے کہ فلاں کافر ہے اور فلاں مسلمان ہے تو بتائیں کہ پھر انسان کے اختیار میں کیا ہے۔ایک انسان کی تقدیر میں لکھا ہواہے کہ یہ کافر ہے خواہ وہ کتنی ہی محنت کیوں نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ خدا نے تو خود ہی کافر اور مسلمان بنا دیا  ہے۔تو انسان کے بس کی کوئی بات نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان کے نفس میں محفوظ کفریات شرکیات مظالم او معاصی جن کے اقرار واعتراف سے روز جزاء زبان انکاری ہوگی۔مثلا قرآن میں مقولۂ کفار ہے:

﴿وَاللَّـهِ رَ‌بِّنا ما كُنّا مُشرِ‌كينَ ﴿٢٣﴾... سورة الانعام

''اللہ کی قسم تو ہمارا پروردیگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے۔''

تو اس کو مہر لگا کر گونگا بنا دیا جائے گا۔ پھر جوارح ان امور کی نشان دہی کریں گے تاکہ وجود کی شہادت سے انکار وتردد کی تمام راہیں مسدود ہوکر عذاب الٰہی سے بچنے نہ پائیں۔ایک حدیث میں حضرت انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ بندہ اپنے بُرے اعمال سے قیامت کے دن مکر جائے گا اور کہے گا: اے پروردیگار کوئی گواہ ہوتو مانوں۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو خود گواہ ہے اور لکھنے والے فرشتے گواہ ہیں۔پھر اس کے منہ پرمہر کردی جائے گی۔ اور ہاتھ پاؤں کو حکم ہوگا کہ بولو! اور اس کی بد اعمالیاں بیان کردو! وہ اس کے سب کرتوت بیان کردیں گے۔تب بندہ کہے گا جاؤ دور ہو میں تمہارے بچانے کے لئے سب ترکیب کر رہا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اس حدیث کے بیان کرتے وقت ہنس پڑے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم جانتے ہو میں کیوں ہنسا ہوں۔بندےکے اپنے رب سے منہ در منہ کلام کرنے پر(صحیح مسلم ۔کتاب الذھد)

بایں ہمہ اعضاء کی شہادت کا تعلق روح سمیت تمام انسانی باطنی مشینری سے ہوگا جو اخفاء حق میں معاون بنے گی۔ اور عذاب روح اور جسم دونوں کو ہوگا۔جس طرح کہ ''حدیث قبر'میں اس کی واضح دلیل ہے اور روح کے بارے میں یہ نظریہ کہ اس کا حقیقی کوئی وجود نہیں ہے۔سراسر غلط اور کتاب وسنت کے منافی ہے بلکہ روح رب کریم کی مربوب مخلوق ہے شارح عقیدہ طحاویہ فرماتے ہیں:

وقد اجمعت الرسل علي انها محدثة مخلوقة مصنوعة مربوبة مدبرة(ص:379)

یعنی''رسولوں  علیہ السلام  کا اس بات پراجماع ہے کہ روح محدث مخلوق مصنوع مربوب اور مدبر ہے۔'' اورقرآن کی آیت ﴿قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي﴾کی تفسیر میں علامہ سعدی رقمطراز ہیں:

’’اي من جملة مخلوقاته التي امرها الله ان تكون فكانت ’’(٤/٣١١)

یعنی''روح اللہ کی جملہ مخوقات سے ہے۔ جس کو اس نے بننے کا حکم دیا پس وہ بن گئی۔''

نیز علامہ عثمانی مرحوم فرماتے ہیں: دنیا میں کانوں سے آیات  تنزیلیہ سنیں اور آنکھوں سے آیات تکوینیہ دیکھیں مگر کسی کو نہ مانا۔یہ خبر نہ تھی کہ گناہوں کا یہ  سارا ریکارڈ خود انہی کی ذات میں محفوظ ہے جو وقت پرکھول دیا جائے گا۔روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ محثر میں کفار اپنے جرائم کا زبان سے انکار کریں گے اس وقت حکم ہوگا کہ ان کے اعضاء کی شہادت پیش کی جائے گی۔جن کے زریعہ سے گناہ کئے تھے۔چنانچہ ہر ایک عضو شہادت دے گا اور اس طرح زبان کی تکذیب ہوجائےگی۔تب مبہوت وحیران ہوکر اپنے اعضاء کو کہے گا (کم بختو!)دور ہوجاؤ۔تمہاری ہی طرف سے تو میں جھگڑتا اور مدافعت کرتا رہا(تم خود ہی اپنے جرموں کا اعتراف کرنے لگے)۔(سورۃ المومن حاشیہ نمبر:9)

اللہ عزوجل وحدہ لاشریک چونکہ عالم الغیب والشہادۃ ہے اور اس کا علم ہر شے کو محیط ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَنَّ اللَّـهَ قَد أَحاطَ بِكُلِّ شَىءٍ عِلمًا ﴿١٢﴾... سورةالطلاق

''اور یہ کہ اللہ اپنے علم سے ہر چیز پراحاطہ کئے ہوئے ہے۔''

جس کو اس نے اپنی حکمت کاملہ کی بنا پر لوح محفوظ کی صورت میں لکھ رکھا ہے۔اسے خوب معلوم ہے کہ کس بندے نے ایمان اختیار کرنا ہے اورکس نے کفرکا  ارتکاب کرنا ہے۔

اس بارے میں بعض لوگوں کا نظریہ کہ اللہ نے لکھا ہوا ہے اس لئے بندہ کسی فعل کا ارتکاب کرتا ہے یہ غلط ہے بلکہ اس طرح کہنا چاہیے کہ بندے نے کرنا تھا اس لئے اللہ نے لکھا ہے چنانچہ ایک روایت میں ہے: قلم        کو حکم ہوا لکھ اس نے کہا:میں کیا لکھوں؟ حکم ہوا:تقدیر لکھ ۔پس قلم نے جو کچھ ہوچکا تھا اورجو کچھ ہونا تھا لکھ دیا۔صححہ الالبانی صحیح الترمذی ابواب القدر رقم الباب (16) المشکاۃ (94) والصحیحۃ (133)

غور فرمائیے ! اس میں اللہ کا کیا قصور ہے؟ ہاں اگر اللہ  کی تحریر بندے کے لئے رکاوٹ بنتی تو واقعی اعتراض ممکن تھا۔لیکن جب معاملہ یوں نہیں بلکہ بندے سے جو کچھ ہوناتھا قلم نے وہی کچھ مقید کیا ہے پھر اس پر بھی گرفت نہیں بلکہ فعل جب ہو گزرا تو اسے پکڑا مذید وضاحت کے لئے اس کو یوں سمجھیں بفرض محال اگر اللہ کو علم نہ ہوتا تو بھی بندے نے نیکی یا بدی کرنی تھی تو اللہ کے علم سے کونسا جبر لازم آگیا۔

یاد رہے کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ بندوں کے تمام افعال کا خالق صرف اللہ ہے اور کسب بندوں کا ہےقرآن میں ہے:

﴿وَاللَّـهُ خَلَقَكُم وَما تَعمَلونَ ﴿٩٦﴾... سورة الصافات

''حالانکہ تم کو اور جو تم بناتے ہو اس کو اللہ ہی نے  پیدا کیا ہے۔''

﴿إِنّا هَدَينـٰهُ السَّبيلَ إِمّا شاكِرً‌ا وَإِمّا كَفورً‌ا ﴿٣﴾... سورة الدهر

''(اور)اسے رستہ بھی دکھادیا(اب)خواہ وہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا۔''

﴿فَأَلهَمَها فُجورَ‌ها وَتَقوىٰها ﴿٨ قَد أَفلَحَ مَن زَكّىٰها ﴿٩ وَقَد خابَ مَن دَسّىٰها ﴿١٠﴾... سورة الشمس

''پھر اس کو بدکاری(سے بچنے)  اور پرہیز گاری کرنے کی سمجھ دی کہ جس نے(اپنے) نفس کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا۔''

بخلاف جبریہ کے کہ ان کا کہنا ہے کہ بندہ مجبور محض ہے جس طرح کوئی شے ہوا میں معلق ہوتو بلا ارادہ ہلتی رہتی ہے۔اسی طرح انسان بھی مسلوب الاخیار ہے اور معتزلہ کے نزدیک بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے۔ یہ دونوں نظریے گمراہ اور کتاب وسنت کے خلاف ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ بندہ نہ تو مجبور محض ہے اور نہ مختار مطلق بلکہ اس کی حالت بین بین ہے۔ جس کو کسب اور اکتساب سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ دیکھئے روح کی حقیقت سے(علماء کے اٹھارہ سو اقوال کے باوجود) ہم ناواقف ہیں۔ لیکن اس کے آثار کی وجہ سے ہم تسلیم کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کی ذات وصفات پر ہمارا ایمان ہے لیکن کنہہ وحقیقت کا ادراک نہیں۔ٹھیک اسی طرح کسب واکتساب کو سمجھ لینا چاہیے

مذید بسط وتفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:شرح العقیدۃ الطحاویۃ (ص 431۔440)

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص246

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ