سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(49) مسجدوں میں ذکر کی مجلسیں منعقد کرنا

  • 12768
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1495

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بہت سی مسجدوں میں ذکر کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔جن میں خود ساختہ طریقوں سے زکر الٰہی کا اہتمام اور بعض الفاظ کا مخصوص انداز میں ورد کرایا  جاتا ہے۔کیا احادیث میں ان کا کوئی ثبوت ملتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلا ریب اللہ کی یاد اور اس کا زکر ہر مومن کا مطلوب اور حرز جان ہے لیکن اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی اور مخصوص ہیت اجتماعی اورخاص انداز میں زکر مقطع( الفاظ کو کاٹ کرجیسے ھو ھو) کاشریعت مطہرہ میں کہیں نام ونشان نہیں ملتا۔جس طرح کہ مشار الیہ قوم کے ہاں مروج ہے۔یاد رہے جو شئی عہد نبوت میں دین کی تھی وہ آج بھی دین ہے۔اورجو اس وقت دین نہیں تھی۔وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی۔''چاہے اس کے اثبات کے لئے سو جتن کئے جائیں۔(قالہ الامام مالک  رحمۃ اللہ علیہ )الاعتصام في ذم البدع(١/٣٣)للشاطبي

اسی بناء پر حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے مسجد میں جمے ہوئے حلقہ زکر جہاں سو سو دفعہ  تسبیحات اور  تکبیرات کا ورد کرایا جارہاتھا تندوتیز لہجہ میں فرمایا:

«ويلكم يا امت امحمد صلي الله عليه وسلم! ما اسرع هلاكتكم ! صحابة نبيكم متوافرون وهذه ثيابه لم قبل وآنيته  تكسر والذي نفسي بيده انكم لعليٰ ملة هي اهدي من ملة محمد صلي الله عليه وسلم او فاتحوا باب ضلالة؟قالوا: والله يا ابا عبدالرحمٰن!مااردناالاالخير  قال:وكم من مريد للخير لم يصبه »الدارمی باب فی کراھیة اخذ الرای (206) وقال محققه سلیم : اسناده جید واللفظ له والطبرانی فی الکبیر (9/126۔127(سنن نسائی 1/68     باسناد صحیح)

یعنی'' اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم !  تمھیں کیا ہوگیا کس قدر جلدی برباد ہورہے ہو؟ابھی تم  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب   رضوان اللہ عنھم اجمعین  بکثرت تم میں موجود ہیں۔ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہوئے ۔اور برتن ٹوٹنے نہیں پائے۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کیا تمہارا مسلک زیادہ ہدایت والا ہے۔ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کا دین یا کیا تم  گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو؟لوگوں نے کہا:ابو عبدا لرحمٰن! ہمارا ارادہ تو محض خیر ہے۔جواباً فرمایا: کتنے ہی  وہ لوگ ہیں جو خیر کو چاہتے ہوئے بھی اسے محروم رہتے ہیں۔''

لہذا ماثورہ ادعیہ کے ساتھ یاد الٰہی کی کیفیت وہی ہونی چاہیے جس کی ت تصریح کتاب ھدیٰ میں بایں الفاظ موجود ہے:

﴿الَّذينَ يَذكُر‌ونَ اللَّـهَ قِيـٰمًا وَقُعودًا وَعَلىٰ جُنوبِهِم...١٩١﴾... سورة آل عمران

''جو کھڑے اوربیٹھے اور لیٹے(ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں۔''

یہاں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ بعض روایات میں وار دہے:

ماجلس قوم مجلسا يذكرون الله الا حفتهم الملائكة وغشيتهم الرحمة ونزلت عليهم السكينة وزكرهم الله فيمن عنده ’’صحیح مسلم(6855) وابن ماجه(3791)

یعنی'' جب کوئی قوم کسی مجلس میں ''اللہ کازکر کر تی ہے تو فرشتے ان کا احاطہ کرلیتے ہیں۔ اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے۔اور ان پر تسلی نازل ہوتی ہے۔اور اللہ تعالیٰ ان کا زکر خیر  ان (فرشتوں) میں کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں۔''

اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی تفسیر صحیح مسلم کی حدیث میں یوں ہے:

« ما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله ويتدار سونه بينهم الا نزلت عليهم السكينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملائكة وزكرهم الله فيمن عنده » صحیح مسلم ایضا

یعنی '' جب کوئی قوم اللہ کے  گھروں میں سے کسی گھر یعنی مسجد وغیرہ میں جمع ہوکر آپس میں کتاب اللہ کو پڑھتے پڑھاتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے۔اور فرشتے گھیر لیتے ہیں اور ان کاتذکرہ جواللہ کے پاس ہیں ان میں ہوتا ہے ۔''

صاحب المراۃ '' فی بیت من بیوت للہ'' کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

هو شامل جميع ما يبنيٰ لله تقربا اليه من المساجد والمدارس والرباط ’’

  یعنی لفظ حدیث ''اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں'' یہ لفظ شامل ہے۔ تمام ان چیزوں کو جن کی  تعمیر اللہ کے  تقرب کے لئے ہوئی ہے۔مثلا مدارس ۔مساجد۔ اور رباط۔یعنی فقراء کے لئے دینی وقف گاہیں وغیرہ۔(1/184)

اس سے معلوم ہوا ان احادیث کے مصداق وہ پاکباز لوگ ہیں۔ جو ہمہ تن کتاب و سنت کی اشاعت میں مصروف کار رہتے ہیں۔ نہ کہ اہل بدعت جو اپنی طرف سے محافل زکر کا اختراع کرکے رسول الثقلین صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذمے تھوپتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ پہلی حدیث میں سابقہ پروگرام کے تحت کسی خاص محفل کے انعقاد کا زکر نہیں ہے بلکہ مقصود یہاں اتفاقی مجلس ہے جو عام طور پر مساجد میں جمتی رہتی ہے قطع نظر زکری اجتماعی قیادت کے ہر ایک اپنی بساط کے مطابق انفرادی طو پر زکر میں مصروف رہتا ہے یہ بھی مجلس کی صورت ہی ہے۔

اور جہاں تک اس محفل سے آپ کے محظوظ ہونے کا تعلق ہے سو اس بارے میں عرض ہے بدعت کا یہ خاصہ ہے کہ ہمیشہ اس میں تحسینی پہلو غالب نظرآتاہے۔جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

« من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه فهو رد»انظر الرقم المسلسل

یعنی '' جس نے ہمارے دین میں اضافہ کیا وہ مردود ہے''

اللهم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه

ھذا ما عندي واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ

ج1ص225

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ