سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(226) جھوٹی قسم کھائی اور پھر توبہ کرلی

  • 12693
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 973

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے بچپن میں جب کہ اس کی عمر پندرہ سال تھی، ہاتھ میں قرآن مجید پکڑ کر جھوٹی قسم کھائی، لیکن سن رشد کو پہنچنے کے بعد اسے اس پر ندامت ہوئی، کیونکہ اسے اب یہ معلوم ہوگیا کہ یہ جھوٹی قسم کھانا شرعاً حرام تھا، تو کیا اسے گناہ ہوگا؟ کیا اس پر کفارہ لازم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ سوال در حقیقت دو سوالوں کا مجموعہ ہے۔ پہلا سوال تو ہے تاکید کے لیے قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانا، تو مجھے سنت سے اس کی کوئی اصل معلوم نہیں ہے، لہٰذا یہ شرعاً درست نہیں ہے اور دوسرا مسئلہ ہے جانتے بوجھتے ہوئے جھوٹی قسم کھانا، تو یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ اس سے توبہ کرنا واجب ہے حتیٰ کہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ جھوٹی قسم کو عربی میں ’’ یمین غموس‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ قسم، قسم اٹھانے والے کو پہلے گناہ میں اور پھر جہنم کی آگ میں ڈبو دیتی ہے۔

اگر یہ قسم بلوغت کے بعد اٹھائی گئی تو قسم اٹھانے والا گناہ گار ہوگا، اسے توبہ کرنی چاہیے۔ البتہ اس کا کفارہ نہیں ہے، کیونکہ کفارہ تو ان قسموں پر ہوتا ہے جن کا تعلق مستقبل کی اشیا سے ہو، ماضی کی اشیا میں کفارہ نہیں ہے، بلکہ ان میں تو انسان دو باتوں میں دائر ہوتا ہے کہ وہ یا تو گناہ گار ہوگا یا گناہ گار نہیں ہوگا۔ اگر وہ جانتے بوجھتے ہوئے جھوٹی قسم کھا رہا ہے تو وہ گناہ گار ہوگا اور اگر اسے علم ہو یا ظن غالب یہ ہو کہ وہ سچا ہے تو پھر وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص179

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ