سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(206) کیا یہ حدیث «اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ» ’’اسے باندھ دو اور پھر توکل کرو‘‘ صحیح ہے؟

  • 12666
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 2177

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

طلبہ کی ایک جماعت کے سامنے قرات کرتے ہوئے یہ حدیث گزری کہ ’’ایک اعرابی نبیﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں اسے باندھوں یا تو کل کروں تو آپ نے فرمایا کہ اپنی اونٹنی کو باندھ دو اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرو۔‘‘ تو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ حدیث تو ثابت ہی نہیں ہے۔ امید ہے آپ راہنمائی فرمائیں گے کیا یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام ترمذی نے اپنی ’’سنن‘‘ میں بطریق حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اسے باندھوں اور توکل کروں یا کھلا چھوڑ دوں اور توکل کروں؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ» جامع الترمذي صفة القيامة باب حديث اقلها وتوكل حديث:2517

’’اسے باندھ دو اور توکل کرو۔‘‘

اسے ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی نے امام یحییٰ بن سعید قطان کا یہ قول لکھا ہے کہ میرے نزدیک یہ حدیث منکر ہے۔ پھر امام ترمذی نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ حدیث بسند انس غریب ہے اور ہم اسے اسی سند ہی سے پہچانتے ہیں۔ نیز اسے عمرو بن امیہ ضمری نے بھی نبیﷺ سے اس طرح روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اسے حافظ ہیثمی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’ مجمع الزوائد و منبع الفوائد‘‘ کی دسویں جلد میں باب قیدھا وتوکل‘‘ کے تحت اسی طرح درج کیا ہے کہ عمرو بن امیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں اپنی سواری کو کھلا چھوڑ دوں اور توکل کروں؟ تو نبیﷺ نے فرمایا:

«بل قيدهاوتوكل»مجمع الزوائد:291/10والمستدرك علي الصحيحين للحاكم :123/3والفظ له)

’’بلکہ نہیں اسےباندھ دو اورتوکل کرو۔‘‘

اسے امام طبرانی نے دو سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے، ان میں سے ایک میں عمرو بن عبداللہ بن امیہ ضمری ہے اور اسے میں نہیں جانتا، اس کے علاوہ اس کے باقی رجال ثقہ ہیں۔ حافظ ہیثمی نے دسویں جلد میں (باب التوکل، وقیدھا وتوکل) میں یہ حدیث بھی ذکر کی ہے کہ عمرو بن امیہ ضمری سے روایت ہے کہ اس نے کہا، یا رسول اللہ! میں اپنی سواری کو کھلا چھوڑ دوں اور توکل کروں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«بل قيدهاوتوكل»مجمع الزوائد:291/10والمستدرك علي الصحيحين للحاكم :123/3والفظ له)

’’بلکہ نہیں اسےباندھ دو اورتوکل کرو۔‘‘

طبرانی نے اسے کئی سندوں سے روایت کیا ہے: ’’ ان میں سے ایک سند کے رجال صحیح کے رجال ہیں، سوائے یعقوب بن عبداللہ بن عمرو بن امیہ کے اور وہ ثقہ ہیں۔ ‘‘ علامہ سیوطی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’ الجامع الصغیر‘‘ کے حرف ہمزہ میں ترمذی کی روایت کو ذکر کرکے اس پر ضعف کی علامت لگائی ہے۔

خلاصۂ قول یہ ہے کہ اس حدیث میں کلام ہے مگر اس کے معنی صحیح ہیں کیونکہ کتاب اللہ اور سنت صحیحہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی پر توکل کے ساتھ ساتھ اسباب اختیار کرنے کی ترغیب ثابت ہے۔ جو شخص محض اسباب پر اعتماد کرے اور اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی پر توکل نہ کرے تو وہ مشرک ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرے مگر اسباب اور وسائل کو اختیار نہ کرے تو وہ جاہل، کوتاہی کرنے والا اور خطا کار ہے جب کہ شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ ان دونوں باتوں کو اختیار کیا جائے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص157

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ