سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(188) نئی ہجری سال کے موقع پر حدیث

  • 12658
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1168

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس نئے ہجری سال کے موقع پر مجھے یہ حدیث یاد آئی:

«مامن زمان ياتي الا وهو اسوا اوشرمما قبله»

’’ہر آنے والا زمانہ پہلے سے زیادہ برا ہوگا۔‘‘

جملہ احادیث کا یہی مفہوم ہے، لیکن بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک زمانے میں شرک، بدعات اور جہالت کی گرم بازاری ہوتی ہے مگر پھر اس کے بعد ایک ایسا زمانہ بھی آتا ہے جو اس سے بہتر ہوتا ہے کہ اس میں شرک مٹ جاتا یا کم ہوجاتا ہے۔ بدعات کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور علم کا نور پھیل جاتا ہے مثلاً شیخ محمد بن عبدالوہاب کی دعوت سے پہلے زمانہ اور پھر ان کی دعوت کے زمانہ میں یہی صورت حال تھی تو فتویٰ عطا فرمائیں کہ اس حدیث کا کیا مفہوم ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر و ثواب سے نوازے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب لوگوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس حجاج ثقفی کے مظالم کی شکایت کی تو اس وقت انہوں نے رسول اللہﷺ کی یہ حدیث بیان کی:

«فَإِنَّهُ لاَ يَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ إِلَّا الَّذِي بَعْدَهُ شَرٌّ مِنْهُ، حَتَّى تَلْقَوْا رَبَّكُمْ»صحيح البخاري الفتن باب لاياتي زمان الا الذي بعده شر منه حديث:7068

’’تمہارے لیے اب زمانہ بھی آئے گا وہ پہلے سے برا ہوگا (اوریہ سلسلہ ) تمہاری اپنے رب سے ملاقات تک جاری رہے گا۔‘‘

انسان کو چاہیے کہ وہ اس حدیث کو کسی خاص علاقے یا مخصوص لوگوں کے تناظر میں نہ دیکھے بلکہ اس کی طرف عموم کے اعتبار سے دیکھے کیونکہ اگر کسی علاقے سے شرک اور فتنوں کے ازالہ کے بعد صورت حال میں تبدیلی آجائے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ ساری زمین کی حالت ہی درست ہوگئی ہے، لہٰذا اس نص سے مقصود عموم ہے نہ کہ مخصوص طور پر زمین کا ہر علاقہ اور ہر علاقے میں بسنے والا ہر ہر طبقہ۔ اس حدیث کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے اکثر و بیشتر حالت پر محمول کیا جائے گا اور اگر کسی جگہ شر کے بعد خیر رونما ہو جائے خواہ وہ عام کیوں نہ ہو تو اسے حدیث کے عموم کا مخصص قرار دیا جائے گا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص149

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ