سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(185) نبیﷺکے فرمان «اِنَّ اللّهَُ تَجَاوَزَلِی عَنْ اُمَّتِی الْخَطَأَ وَالنِّسْیَان» کا مطلب

  • 12655
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 3150

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نبیﷺ کے اس ارشاد کے کیا معنی ہیں؟

«اِنَّ اللّهَُ تَجَاوَزَلِی عَنْ اُمَّتِی الْخَطَأَ وَالنِّسْیَان وما استكرهوا عليه»

’’اللہ تعالیٰ نے میری خاطر میری امت کی خطا بھوک چوک اور جس پر انہیں مجبور کردیاگیا ہوسے درگزر کر رکھا ہے۔‘‘


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس حدیث کو ابن ماجہ نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے طبرانی نے معجم کبیر اور حاکم نے مستدرک میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے۔(۱) امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح اور امام بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق ہے مگر امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ یہ ثابت نہیں ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ نے ان کے حوالے سے ’’بلوغ المرام‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ (۲)طبرانی نے معجم کبیر میں اسے حضرت ثوبان مولیٰ رسول اللہﷺ سے بھی روایت کیا ہے(۳) مگر اس کی سند ضعیف ہے جیسا کہ ھیثمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں لکھا ہے۔(۴) اس حدیث میں خطا کا لفظ عمد (قصد و ارادہ) اور نسیان کا لفظ ذکر و حفظ کی ضد کے طور پر استعمال ہوا ہے اور معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمدﷺ کو آپ کی امت کے حوالے سے یہ اعزاز عطا فرمایا ہے کہ وہ امت کے اس فرد کا مؤاخذہ نہیں کرے گا جو غلطی سے یا بھول چوک کر کسی گناہ کا ارتکاب کرے یا کسی واجب کو ترک کردے۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق ایسا شخص گناہ گار نہیں ہوگا۔

جہاں تک واجبات میں خطا یا نسیان کے استدراک کا تعلق ہے یا اس بات کا تعلق ہے کہ حرام امور کے ارتکاب سے کیا لازم آئے گا تو اس کے لیے ادلہ تفصیلیہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ مثلاً قتل خطا کی صورت میں دیت اور کفارہ لازم ہے۔ نماز میں خطا یا نسیان کی صورت میں سجدہ سہو ہے اور اگر نماز ہی کو بھول گیا ہو تو اس صورت میں قضا ہے، اس طرح حرم میں کیے جانے والے شکار کا بدلہ یا کفارہ ہے۔ خطا و نسیان کی بعض صورتوں میں کچھ بھی لازم نہیں ہوتا مثلاً اگر مکلف شخص روزہ کی حالت میں بھول کر کچھ کھا پی لے یا بھول کر قسم توڑ دے تو کوئی کفارہ لازم نہیں ہے۔

اسی طرح اگر کسی شخص کو کسی حرام کام کے ارتکاب پر اس قدر مجبور کردیا گیا ہو کہ اس کے لیے اس سے خلاصی کی طاقت ہی نہ ہو تو اس صورت میں اسے کوئی گناہ نہیں ہوگا بشرطیکہ اس کا دل ایمان سے سرشار ہو۔ جس گناہ پر اسے مجبور کیا گیا ہو، اس کا وہ منکر ہو اور اسے حلال نہ سمجھتا ہو۔ البتہ اگر اسے کسی شخص کے قتل پر مجبور کیا گیا ہو تو وہ اسے قتل کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا کیونکہ اس نے اپنی جان بچالی اور دوسرے انسان کو قتل کردیا۔ اگر کسی کو کسی واجب کے ترک پر مجبور کردیا گیا ہو تو اسے ترک کرنے کی وجہ سے وہ گناہ گار نہیں ہوگا، لیکن اگر ممکن ہو تو ممانعت کے ازالہ کے بعد اس واجب کو ادا کرنا ہوگا۔


 

(۱) سنن ابن ماجه، الطلاق، باب طلاق المکرہ والناس، حدیث:2043۔ المعجم الکبیر للطبراني133/11، 134حدیث: 11274، المستدرک للحاکم، 198/2

(۲) المعجم الکبیر للطبراني : 97/2، حدیث: 1430

(۳) بلوغ المرام، الطلاق، حدیث : 1078

(۴) مجمع الزوائد : 250/6

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص147

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ