سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(148) حدیث وصیت

  • 12622
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1743

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے ایک دوست نے مجھے ایک کاغذ دیا، جس میں لکھا ہوا تھا کہ نبیﷺ نے امام علی رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت فرمائی کہ علی! سونے سے پہلے پانچ کام ضرور کرو (1) پورے قرآن مجید کی تلاوت کرو (2) چار ہزار درہم صدقہ کرو (3)کعبہ کی زیارت کرو(4) جنت میں اپنی جگہ محفوظ کرلو اور (5)جھگڑنے والوں کی آپس میں صلح کرا دو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! یہ کیسے ممکن ہے؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ﴿ قل ھو اللہ احد﴾ کو تین بار پڑھنا گویا سارے قرآن کو پڑھنے کے برابر ہے۔ (2) اگر آپ چار دفعہ سورت فاتحہ پڑھیں تو گویا چار ہزار درہم کا صدقہ کیا(3)اگر آپ دس دفعہ یہ پڑھ لیں کہ ’’ لَا اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیْكَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَیُمِیْتُ وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ‘‘ تو گویا کعبہ کی زیارت کرلی اور (4)اگر آپ دس دفعہ یہ پڑھیں: ’’ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم‘‘ تو آپ نے جنت میں اپنی جگہ کو محفوظ کرلیا اور (5)اگر آپ دس دفعہ یہ پڑھیں: ’’ اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ الْعَظِیْمَ الَّذِیْ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْهِ‘‘ تو آپ نے گویا جھگڑنے والوں میں صلح کرادی۔

کیا یہ اقوال صحیح ہیں؟ مجھے تو صرف یہ معلوم ہے کہ سورۂ اخلاص کا پڑھنا ثلث قرآن کے برابر ہے تو سوال یہ ہے کہ ان مذکورہ بالا اقوال کے بارے میں شریعت کی کیا رائے ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث جس میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ نبیﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مذکورہ بالا وصیتیں فرمائیں، یہ جھوٹی اور موضوع حدیث ہے۔ اسے نبیﷺ کی طرف منسوب کرنا یا آپ کے حوالہ سے بیان کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ جو شخص نبیﷺ کے حوالہ سے کوئی ایسی حدیث بیان کرے، جو اس کی رائے میں جھوٹی ہو تو وہ بیان کرنے والا بھی جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے اور جو شخص جان بوجھ کر نبیﷺ کی طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کرے تو اسے بیان کرے کہ یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے تاکہ لوگ اس سے اجتناب کریں تو پھر اسے بیان کرنے کا اجر و ثواب ملے گا، بہرحال مذکورہ بالا حدیث جھوٹی ہے۔ اسے از راہ جھوٹ نبیﷺ اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔

یہاں ایک اور بات کی طرف توجہ مبذول کروانا بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ سائل نے اپنے سوال میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے امام کا لفظ استعمال کیا ہے لا ریب حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی دیگر خلفاء راشدین کی طرح یکے از ائمہ ہیں کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی امام ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی امام ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی امام ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی امام ہیں کیونکہ یہ چاروں خلفائے راشدین ہیں اور ان کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا:

(فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ من بعد)(سنن ابي  دواود السنه باب في لزوم السنة حديث:4607وجامع الترمذي العلم باب  ماجاء الاخذ بالسنة واجتناب البدعه حديث:2676)

’’میری سنت اور میرے بعد کے خلفائے راشدین کی سنت  پر عمل کرنا۔‘‘

تویہ وصف حضرت ابوبکر عمرعثمان اور علی  رضی اللہ عنہ سب پر منطبق ہوتا ہے۔

تو یہ وصف حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہ سب پر منطبق ہوتا ہے۔

امامت صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس شخص کے لیے ہے جس کی اقتداء کی جائے، یہی وجہ ہے کہ جو نماز میں امامت کے فرائض سر انجام دے اسے امام جماعت کہا جاتا ہے، اسی طرح جو شخص مسلمانوں کے امور و معاملات میں امامت کے فرائض سرانجام دے اسے بھی امام کہا جاتا ہے کیونکہ وہ راہنما و پیشوا ہوتا ہے اور اس کی بھی اقتداء کی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا کلمۂ امام سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ معصوم عن الخطاء ہے، تو یہ ایک غلط تصور ہے کیونکہ مخلوق میں سے کوئی بھی معصوم عن الخطاء نہیں، سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ بچالے۔ اولیاء اللہ سے بھی دوسرے انسانوں کی طرح غلطیاں ہوتی ہیں اور وہ بھی توبہ کرتے ہیں کیونکہ ہر ابن آدم خطا کار ہے اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرلیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص127

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ