سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(106) ارشادِ باری تعالیٰ ﴿وَعَلَی الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا﴾ کی تفسیر

  • 12546
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1349

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حسب ذیل ارشادِ باری تعالیٰ کے کیا معنی ہیں؟

﴿وَعَلَى الَّذينَ هادوا حَرَّ‌منا كُلَّ ذى ظُفُرٍ‌ ۖ وَمِنَ البَقَرِ‌ وَالغَنَمِ حَرَّ‌منا عَلَيهِم شُحومَهُما إِلّا ما حَمَلَت ظُهورُ‌هُما أَوِ الحَوايا أَو مَا اختَلَطَ بِعَظمٍ ۚ ذٰلِكَ جَزَينـٰهُم بِبَغيِهِم ۖ وَإِنّا لَصـٰدِقونَ ﴿١٤٦﴾... سورة الانعام

’’ اور یہود پر ہم نے تمام ناخن والے جانور حرام کرد یئے تھے اور گائے اور بکری میں سے ان دونوں کی چربیاں ان پر ہم نے حرام کردی تھیں مگر وه جو ان کی پشت پر یا انتڑیوں میں لگی ہو یا جو ہڈی سے ملی ہو۔ ان کی شرارت کے سبب ہم نے ان کو یہ سزا دی اور ہم یقیناً سچے ہیں۔‘‘


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ اس نے یہودیوں پر ناخن والے تمام چوپائے جانور حرام کردیے تھے۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ ناخن والے جانور سے مراد وہ جانور ہے جس کے ہاتھ اور پاؤں میں کٹ نہ ہو بلکہ وہ آپس میں یکجا ہو کر ملے ہوئے ہوں، مثلاً جس طرح اونٹ کا پاؤں ہوتا ہے جب کہ کچھ جانوروں کے پاؤں کٹے بھی ہوتے ہیں، مثلاً جس طرح بکریوں اور گایوں کے پاؤں تو اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر ہر ناخن والے جانور کو حرام کردیا تھا، نیز ان کے لیے گایوں اور بکریوں کی چربی کو بھی حرام قرار دیا تھا۔ سوائے اس کے جو ان کی پیٹھ پر لگی ہو یا اوجھڑی میں ہو یا ہڈی میں ملی ہو، تو یہ ان کے لیے حلال تھی۔

اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ یہ حرمت ان کی سرکشی اور عداوت کی وجہ سے تھی، یعنی انہوں نے جب بغاوت و عداوت کی روش کا اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بعض پاک (اور حلال) چیزوں کو بھی حرام قرار دے دیا جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿فَبِظُلمٍ مِنَ الَّذينَ هادوا حَرَّ‌منا عَلَيهِم طَيِّبـٰتٍ أُحِلَّت لَهُم وَبِصَدِّهِم عَن سَبيلِ اللَّـهِ كَثيرً‌ا ﴿١٦٠﴾... سورةالنساء

’’ جو نفیس چیزیں ان کے لئے حلال کی گئی تھیں وه ہم نے ان پر حرام کردیں ان کے ظلم کے باعث اور اللہ تعالیٰ کی راه سے اکثر لوگوں کو روکنے کے باعث۔‘‘

یہ گویا دنیا میں سزا کی ایک صورت تھی اسی لیے تو فرمایا:

﴿ذٰلِكَ جَزَينـٰهُم بِبَغيِهِم ۖ وَإِنّا لَصـٰدِقونَ ﴿١٤٦﴾... سورةالانعام

’’ ان کی شرارت کے سبب ہم نے ان کو یہ سزا دی اور ہم یقیناً سچے ہیں۔‘‘

اس آیت میں ضمیر ’’ہم‘‘ یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے اور اس نے یہاں جمع کے صیغے تعظیم کے لیے استعمال کیے ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ سچا قائل اور سب سے بڑا عادل حاکم ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب اپنے رب کی معصیت اور نافرمانی کرتا ہے تو اس پر بعض پاک (اور حلال) چیزوں کو بھی حرام قرار دیا جاتا ہے۔ یا تو شرعاً جیسا کہ یہودیوں کے لیے مذکورہ بالا اشیاء کو حرام قرار دیا گیا تھا یا پھر انہیں قدراً حرام قرار دیا جاتا ہے کہ انسان کئی ایسی آفتوں سے دو چار ہو جاتا ہے جو اسے بعض پاک (اور حلال) چیزیں کھانے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ اسی طرح گناہوں اور معصیتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ قحط سالی اور پھلوں کی کمی میں بھی مبتلا کردیتا ہے اور اگر لوگ تقویٰ کی زندگی بسر کریں، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کی پابندی کریں اور اپنے رب کی اطاعت بجا لائیں تو پھر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَو أَنَّ أَهلَ القُر‌ىٰ ءامَنوا وَاتَّقَوا لَفَتَحنا عَلَيهِم بَرَ‌كـٰتٍ مِنَ السَّماءِ وَالأَر‌ضِ...﴿٩٦﴾... سورة الاعراف

’’ اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔‘‘

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایمان و تقویٰ کی دولت سے سرفراز فرمائے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص99

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ