سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(492) چند مختلف سوالات

  • 12511
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1058

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

٭  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم موت کی خبرسنانے سے منع کرتے تھے کیا فوتگی کااعلان کرنادرست ہے ؟

٭  اگرعورت کے چہرے پرمونچھیں اگ آئیں توکیا انہیں صاف کیاجاسکتا ہے ؟

٭  کیا بچوں یابڑوں کوبرہنہ دیکھنے سے وضوٹوٹ جاتا ہے ؟

٭  عشاء کی نماز کے بعد دونفل اداکیے جاسکتے ہیں؟

٭  اگرزکوٰۃ کی مدت رمضان المبارک سے پہلے پوری ہوجائے توکیااسے رمضان المبارک میں اداکرنے کے لئے روکاجاسکتا ہے تاکہ ثواب زیادہو ؟

٭  سوال درج کرنے سے حیامانع ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

 

جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں :

٭  دورجاہلیت میں رواج تھا کہ جب کوئی مرجاتا تواس کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہوئے گلی کوچوں میں ڈھنڈورا پیٹا جاتاتھا۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس قسم کے اعلانات سے منع فرمایاہے۔     [مسند امام احمد، ص: ۴۰۶، ج۵]

البتہ مسجد میں سادگی کے ساتھ فوتگی کی اطلاع اورنماز جنازہ کااعلان کیاجاسکتاہے، جیساکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے سربراہ حضرت نجاشی کے فوت ہونے کی اطلاع اوراس کے جنازہ کااعلان فرمایاتھا۔     [مسندامام احمد، ص: ۲۴۱، ج۲]

٭  مردوزن کے بال تین طرح کے ہوتے ہیں:

1۔  جن کے زائل کرنے سے شریعت نے منع فرمایا ہے، مثلاً: مرد کی داڑھی اورمردوزن کے ابروؤں کے بال، انہیں زائل کرناحرام اورناجائزہے ۔

2۔  جن کازائل کرناشریعت میں مطلوب وپسندیدہ ہے، مثلاً: مردوزن کے موئے بغل وزیر ناف اورمردکی مونچھیں وغیرہ شریعت نے حکم دیا ہے کہ انہیں زائل کیاجائے ۔

3۔  جن کے زائل یاباقی رکھنے کے متعلق شریعت نے سکوت اختیار فرمایاہے، مثلاً: عورت کی داڑھی اوراس کی مونچھیں وغیرہ ان بالوں کے متعلق شریعت نے کوئی حکم نہیں دیا ہے، بلکہ انسان کے اپنے اختیار پرموقوف رکھا ہے ،ایسی چیزوں کے متعلق شریعت کاقاعدہ ہے کہ وہ قابل معافی ہیں۔ان کاعمل میں لانا،نہ لانادونوں برابرہیں۔     [ابوداؤد، الاطعمہ :۳۸۰۰]

اب ان کے متعلق وجہ ترجیح تلاش کرناہوگی وہ یہ ہے کہ عورت کی داڑھی اورمونچھوں کے بال اس کے قدرتی نسوانی حسن میں باعث رکاوٹ ہیں، پھرعورت کی خلقت اورجبلت کے بھی خلاف ہیں۔ لہٰذا ان زائد بالوں کازائل کرناہی شریعت میں مطلوب ہے۔    [واللہ اعلم ]

٭  شریعت نے نواقض وضوکی تعیین کردی ہے کسی کوبرہنہ دیکھنانواقض وضوسے نہیں ہے۔ شرمگاہ کوہاتھ لگانے سے وضوٹوٹ جاتا ہے ،اس لئے جوخواتین مدت رضاعت کے بعد بچوں کونہلاتی ہیں اگرصابن وغیرہ استعمال کرتے وقت ان کا ہاتھ شرمگاہ کولگ جائے توانہیں نمازکے لئے نیاوضوکرناہوگا ۔

٭  عشاء کی نماز کے بعد دوسنت پڑھنے کااحادیث میں ذکر آیا ہے۔ دونفل اداکرنے کی صراحت کسی حدیث میں بیان نہیں ہے، ہاں، وتر کے بعد دورکعات اداکرنے کاحکم اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاعمل مبارک ملتا ہے۔وہ بھی ہمیں کھڑے ہوکراداکرنے چاہیں، انہیں بیٹھ کراداکرناسنت نہیں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں بیٹھ کراداکرناآپ کاخاصہ ہے ۔اس کی تفصیل گزشتہ کسی فتوی میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

٭ اگرمال ،نصاب زکوٰۃ کوپہنچ جائے اوروہ ضروریات سے فاضل ہواوراس پرسال گزرجائے تواس میں زکوٰۃ واجب ہے۔ اگر کوئی زکوٰۃ کامستحق ضرورت مندہے توفوراًاداکرناچاہیے۔امیدہے کہ ثواب میں کمی نہیں آئے گی۔ ہاں، اگرکوئی ضرورت مند وقتی طورپر سامنے نہیں ہے توثواب میں اضافہ کے پیش نظر اسے رمضان تک مؤخر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم بہتر ہے کہ جب بھی زکوٰۃ واجب ہوتوفوراًاس سے عہدہ برآ ہوجائے کیونکہ زندگی اورموت کے متعلق کسی کوعلم نہیں ہے وہ اللہ کے اختیارمیں ہے۔ اگر زکوٰۃ دیئے بغیر اللہ کاپیغام اجل آگیا تواُخروی بازپرس کااندیشہ ہے ۔

٭  خاوند کوفطرت وشریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی بیوی سے تمتع کرنے کی اجازت ہے۔سوا ل میں ذکرکردہ صورت اگرچہ شریعت کے خلاف نہیں ہے، تاہم فطرت سے متصادم ضرورہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:486

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ