سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(490) ہیجڑا کے شرعی احکام

  • 12509
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 7444

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں پیدائشی طورپر ایک ہیجڑاہوں۔میری شکل وصورت ،چال ڈھال اورجسمانی ساخت وپرواخت انتہائی طورپر لڑکیوں سے مشابہہ ہے میرانام لڑکیوں والااورلباس بھی لڑکیوں والاپہنتا ہوں ۔میرے سرکے بال لڑکیوں کی طرح لمبے اور خوبصورت ہیں۔ایک آواز ہے جولڑکیوں سے قدرے بھاری ہے ۔مجھے دیکھنے والالڑکی ہی خیال کرتا ہے ۔میرے ساتھ یہ حادثہ ہوا کہ میرا گروعدالتی کارروائی کے ذریعے مجھے میرے والدین سے چھین کرلے آیاتھا۔ میں بچپن سے اب تک گرو کی صحبت میں اوراسی کی زیرتربیت رہا ہوں، اس لئے ناچ گانے کاپیشہ اپناناایک فطرتی بات تھی ،تاہم میں شروع ہی سے اس کاربدکونفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا،اب جبکہ میراگرومرچکا ہے اورمیں آزاد ہوں ۔میری عمر تیس بتیس سال کے قریب ہے، لیکن میں اپنے گرو کے مکان میں دوسرے ہیجڑے ساتھیوں کے ساتھ رہتاہوں ۔مجھے اس پیشہ سے جنون کی حدتک نفرت ہوچکی ہے، میں نے عزم کرلیا ہے کہ میں اس پیشہ اورہیجڑوں سے کنارہ کش ہوجاؤں اوراپنی توبہ کاآغاز حج بیت اللہ کی سعادت سے کرناچاہتاہوں ۔میری الجھن یہ ہے کہ میں مردوں کی طرح حج کروں یاعورتوں کی طرح ۔کتاب وسنت کے مطابق میری الجھن حل کریں مجھے اس بات کاعلم ہے کہ اگرمیں مردوں کی طرح حج کروں تو مجھے احرام باندھنا ہوگااورمجھے بدن کاکچھ حصہ ننگارکھناہوگا،اس کے علاوہ سرکے بال بھی منڈوانا ہوں گے، لیکن سچی بات ہے کہ میرے لئے یہ امربہت مشکل ہوگا۔جس سے مجھے خوف آتا ہے بلکہ تصور کرکے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جبکہ عورتوں کی طرح حج کرنے میں مجھے آسانی ہی آسانی ہے، کیونکہ میں نے اب تک عمرکاتمام حصہ عورتوں کی طرح گزاراہے اور جنسی طورپر مردانہ خواہش کبھی بھی میرے دل میں نہیں ابھری، بعض علما سے دریافت کرنے سے الجھن کاشکارہو چکاہوں کہ کیا کروں اور کیانہ کروں ،مجھے کسی نے کہا ہے کہ اگرتم مسئلہ کاصحیح حل چاہتے ہوتوکسی وہابی عالم کی طرف رجوع کرو، اس لئے میں نے آپ کی طرف رجوع کیا ہے ۔مجھے جلدی اس کاجواب دیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس قدر طویل سوال کے باوجود بعض اموردریافت طلب ہیں،تاہم جواب پیش خدمت ہے۔ اس سلسلہ میں چندباتیں ملاحظہ کریں:

اولاً: گروکاوالدین سے عدالتی کارروائی کے ذریعے چھین کرلے آناانتہائی محل نظر ہے، کیونکہ ایساکوئی قانون نہیں ہے جس کا سہارالے کرعدالتی کارروائی کے ذریعے اس ’’مخلوق ‘‘کواس کے والدین سے زبردستی چھینا جھپٹی کی جاسکے ۔یقینا اس میں والدین کی مرضی شامل ہو گی، جس کے متعلق وہ جوابدہ ہوں گے۔ ایسے متعددواقعات ہمارے مشاہدے میں ہیں کہ اس جنس کے گروحضرات والدین سے انہیں لینے آئے، لیکن والدین نے انکار کردیااورانہیں دینی مدرسہ میں داخل کرایا۔دینی تعلیم کایہ اثر ہواکہ وہ گانے بجانے کا دھندا کرنے کے بجائے دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کافریضہ سرانجام دے رہے ہیں ۔

ثانیاً: اس کام سے صرف نفرت ہی کافی نہیں ہو گی، بلکہ فریضہ حج کاانتظارکئے بغیر فوراًاس سے توبہ کی جائے۔ اپنے ساتھیوں سے الگ ہو جانا چاہیے، کیونکہ موت کاکوئی پتہ نہیں کب آجائے ،اخروی نجات کے لئے برے کام سے صرف نفرت ہی کافی نہیں، بلکہ اسے اللہ کی بارگاہ میں ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے چھوڑدیناضروری ہے ۔پھرنیک اعمال نماز ،روزہ وغیرہ سے اس کی تلافی کرنابھی لازمی ہے ۔اس بنا پر سائل کوہماری نصیحت ہے کہ وہ فوراًاس کام سے باز آجائے اوراپنے ہم پیشہ ساتھیوں سے کنارہ کش ہوکر اخروی نجات کی فکر کرے ۔

ثالثاً:رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں یہ جنس موجودتھی، بعض کے نام بھی ملتے تھے کہ وہ معیت ،نافع ،ابوماریہ الجنّہ اور مابور جیسے ناموں سے پکارے جاتے تھے۔ یہ لوگ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرائع اسلام اداکرتے تھے۔نمازیں پڑھتے ،جہاد میں شریک ہوتے اور دیگر امورخیربھی بجالاتے تھے ۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ان کے متعلق پہلے یہ خیال کرتے تھے کہ یہ بے ضررمخلوق ہے۔ آدمی ہونے کے باوجود انہیں عورتوں کے معاملات میں چنداں دلچسپی نہیں ہے ۔اس لئے آپ ازواج مطہرات کے پاس آنے جانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے، لیکن جب آپ کوپتہ چلا کہ انہیں عورتوں کے معاملات میں خاصی دلچسپی ہی نہیں بلکہ یہ لوگ نسوانی معلومات بھی رکھتے ہیں، توآپ نے انہیں ازواج مطہرات اوردیگر مسلمان خواتین کے ہاں آنے جانے سے منع فرما دیا، بلکہ انہیں مدینہ بدر کرکے روضہ خاخ ،حمرآء الاسد اور نقیع کی طرف آبادی سے دور بھیج دیا،تاکہ دوسرے لوگ ان کے برے اثرات سے محفوظ رہیں۔     [صحیح بخاری، المغازی: ۴۲۳۴]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کوحکم دیا کہ انہیں بے ضررخیال کرکے اپنے پاس نہ آنے دیں ،بلکہ انہیں گھروں میں داخل ہونے سے روکیں۔     [صحیح بخاری ،النکاح :۵۲۳۵]

رابعاً: واضح رہے کہ مخنّث بنیادی طورپر مرد ہوتا ہے، لیکن مردمی قوت سے محروم ہونے کی وجہ سے عورتوں جیسی چال ڈھال اور اداو گفتار اختیارکئے ہوتاہے ۔یہ عادات اگرپیدائشی ہیں توانہیں چھوڑنا ہو گا، اگر پیدائشی نہیں بلکہ تکلف کے ساتھ انہیں اختیار کیاگیا ہے تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اختیار پر لعنت فرمائی ہے کہ ’’وہ مردجوعورتوں جیسی چال ڈھا ل اوروہ عورتیں جومردوں جیسی وضع قطع اختیار کریں اللہ کے ہاں ملعون ہیں۔‘‘     [صحیح بخاری ،اللباس :۵۸۸۷]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا مخنّث لایاگیا جس نے عورتوں کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔ آپ سے عرض کیاگیا کہ یہ ازخود عورتوں جیسی چال ڈھال پسندکرتاہے توآپ نے اسے مدینہ بدرکرکے علاقۂ نقیع میں بھیج دیا،جہاں سرکاری اونٹوں کی چراگاہ تھی۔ آپ سے کہاگیا اسے قتل کر دیا جائے۔آپ نے فرمایاکہ ’’مجھے نمازیوں کوقتل کرنے سے منع کیاگیا ہے۔‘‘   [ابوداؤد، الادب: ۴۹۲۸]

 البتہ خنثی اس سے مختلف ہوتا ہے، کیونکہ فقہا کے ہاں اس کی تعریف یہ ہے کہ ’’جومردانہ اورزنانہ آلات جنسی رکھتا ہو یا دونوں سے محروم ہو۔‘‘    [المغنی لابن قدامہ، ص:۱۰۸ ، ج۹]

 بلوغ سے پہلے اس کے لڑکے یالڑکی ہونے کی پہچان اس کے پیشاب کرنے سے ہوسکتی ہے اوربلوغ کے بعد اس کی داڑھی یاچھاتی سے پہچانا جاسکتاہے ۔بہرصورت وہ شرعی احکام کاپابندہے، اگرمرد ہے تومردوں جیسے اوراگرعورت ہے توعورتوں کے احکام پرعمل کیاجائے۔

خامساً: صورت مسئولہ میں جس طرح تفصیل بیان کی گئی ہے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ سائل لڑکی ہے اوراس پرعورتوں جیسے احکام لاگوہوں گے، لیکن حقیقت حال وہ خودہی بہتر جانتا ہے کہ اگر وہ مرد ہے اورعورتوں جیسی شکل وصورت اختیارکی ہے جواس کے گروکی صحبت اورتربیت کانتیجہ ہے تواسے اس شکل وصورت کویکسر ختم کرناہوگا،کیونکہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح عورتوں کاروپ دھارنے والے پرلعنت فرمائی ہے اوراگروہ حقیقت میں عورت ہی ہے، نیزگروکی مجلس نے اس کی نسوانیت کو دو آتشہ کردیاہے تب بھی اسے یہ کام ختم کرناہوں گے اورمسلمان عورتوں کی طرح چادر اورچاردیواری کاتحفظ کرنا ہو گا، تاہم احتیاط کا تقاضاہے کہ حج کے لئے عورتوں جیسااحرام اختیارکرے، یعنی عام لباس پہنے ،اپنے چہرے کو کھلا رکھے، تاہم اگرکوئی اجنبی سامنے آجائے توگھونگھٹ نکالے، جیساکہ سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا کابیان کتب حدیث میں مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالت احرام میں ہوتیں اورقافلے ہمارے پاس سے گزرتے جب وہ ہمارے سامنے آجاتے تو ہم اپنی چادر یں اپنے چہروں پرلٹکالیتیں اورجب وہ گزرجاتے توہم انہیں اٹھادیتیں۔     [ابوداؤد، المناسک: ۱۸۳۳]

اس کے علاوہ محرم کی بھی پابندی ہے کہ وہ اپنے کسی محرم کے ساتھ یہ مبارک سفر کرے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کواس کی بیوی کے ساتھ سفرحج پرروانہ کیاتھا جبکہ وہ جہاد میں اپنانام لکھواچکاتھا ، اس لئے سائل کوحج پرجانے کے لئے اپنے کسی محرم کاانتخاب بھی کرنا ضروری ہے، اگراسے اپنے کسی محرم کا پتہ نہیں ہے، جیساکہ سوال میں بیان کردہ صورت حال سے واضح ہوتاہے  تواسے چاہیے کہ چند ایسی عورتوں کی رفاقت اختیار کرے، جن کے محرم ان کے ساتھ ہوں ،اسے اکیلی عورتوں یااکیلے مردوں کے ساتھ سفرکرنے کی شرعاًاجازت نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:482

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ