سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(478) ’’میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے۔‘‘ حدیث کی تحقیق

  • 12497
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 8155

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضرت علی  رضی اللہ عنہ کے متعلق ریڈیو،ٹی وی پر یہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہے‘‘۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے ،اگر صحیح ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے ہاں بیشتر احادیث زبان زد خاص و عام ہیں، لیکن ان کی اسنادی حیثیت انتہائی مخدوش ہوتی ہے۔ اس میں سے ایک یہ ہے جس کا سوال میں حوالہ دیا گیا ہے۔ اس روایت کو امام حاکم نے اپنی تالیف مستدرک میں بیان کیا ہے۔ [مستدرک، ص: ۱۲۶، ج۳]

یہ حدیث بیان کرنے کے بعد امام حاکم کہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے اور ا بو ا    لصلت نامی راوی ثقہ اور باعث اطمینان ہے۔ [تلخیص المستدرک ص:۱۲۶،ج۳]

اس روایت کے متعلق ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ امام حاکم کا اس طرح کی باطل روایات کو صحیح قرار دینا انتہائی تعجب انگیز ہے اور اس کا ایک راوی احمد تو دجال اور دروغ گوہے۔ اس کے بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ   لکھتے ہیں کہ محدثین کے نزدیک یہ روایت ضعیف بلکہ موضوع ہے۔    [احادیث القصاص، ص: ۷۸]

خطیب بغدادی، امام یحییٰ بن معین کے حوالے سے اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ روایت جھوٹ کا پلندہ اور اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔     [تاریخ بغداد،ص:۲۰۵،ج۱۱]

یہ روایت مختلف الفا ظ سے مروی ہے اور اس کے تمام طرق بے کار ہیں۔ امام جوزی رحمہ اللہ  نے اس روایت کے تمام طرق پر بڑی سیر حاصل بحث کی ہے جو تقریباً چھ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ انہوں نے عقلی اورنقلی لحاظ سے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں یہ حدیث کسی بھی طریق سے صحیح ثابت نہیں ہے۔     [موضوعات،ص:۳۵۳،ج۱]

اس روایت کے دوسرے الفاظ حسب ذیل ہیں: ’’میں دانائی کا گھر ہوں اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہے‘‘۔ [ترمذی، کتاب المناقب: ۳۷۲۳]

امام ترمذی رحمہ اللہ  اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں غرابت اور نکارت ہے۔ حافظ سخاوی، امام دار قطنی کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہونے کے ساتھ ساتھ بے بنیاد بھی ہے۔     [المقاصد الحسنہ، ص:۹۷]

 اس روایت کے متعلق امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ  اور دیگر حضرات نے اسے بیان کیا ہے۔ ان کے بیان کرنے کے باوجود یہ محض جھوٹ ہے۔     [احادیث القصاص،ص:۷۸]

علامہ ذہبی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت کو امام ترمذی رحمہ اللہ  نے اسماعیل بن موسیٰ سے انہوں نے محمد بن عمر سے انہوں نے شریک سے بیان کی ہے مجھے معلوم نہیں ان میں سے کس نے اسے وضع کیا ہے۔[میزان الاعتدال،ص:۶۹۸،ج۳]

  علامہ شوکانی رحمہ اللہ  نے بھی اس روایت کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔[الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ، ص: ۲۴۸]

اگرچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اسے کثرت طرق کی وجہ سے حسن کہا ہے لیکن ان کا یہ فیصلہ محل نظر ہے کیونکہ کثرت طرق سے روایت میں پایا جانے والا معمولی سقم تو دور ہو سکتا ہے لیکن بنیادی کمزوری اس سے رفع نہیں ہو تی۔ چنانچہ محدث ابن الصلاح لکھتے ہیں: کثرت طرق سے ضعف رفع نہیں ہو تا وہ یہ ہے کہ اس روایت میں کوئی راوی متہم بالکذب ہو ۔    [مقدمہ ابن الصلاح، ص:۳۱]

اس روایت کی سند میں صرف تہمت زدہ راوی نہیں بلکہ کذاب اور جھوٹے راوی موجود ہیں۔ محدث العصر علامہ البانی  رحمہ اللہ  نے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے اور اس کے تمام طرق پر بحث کرکے اس کا خود ساختہ ہونا واضح کیا ہے۔[ضعیف الجامع الصغیر:۱۴۱۶]

اس روایت کے مقابلہ میں ایک صحیح روایت ملاحظہ ہو جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’خواب میں میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا میں نے اس میں سے کچھ دودھ نوش کیا حتی کہ اس کی سیرابی میرے ناخنوں تک ٹپکنے لگی۔ میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر  رضی اللہ عنہ  کو دے دیا۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے عرض کیا: اس کی تعبیر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا :’’اس کی تعبیر علم ہے۔‘‘ [صحیح بخاری کتاب تعبیر الرویا، باب رویتہ اللبن]

 ایسامعلوم ہو تا ہے کہ اس روایت کو نیچا دکھانے کے لئے مذکورۃ الصدر روایت کو وضع کیا گیا ہے۔

عرصہ ہوا کہ راقم نے اس روایت کی استنادی حیثیت ہفت روزہ ’’اہلحدیث‘‘۳۱مارچ۱۹۸۹ء میں واضح کی تھی۔ اس کا دفاع سید بشیر حسین بخاری نے پندرہ روزہ ’’ذوالفقار‘‘ پشاور میں کیا۔ ان کے مبلغ علم سے قارئین اس دفاع کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بخاری صاحب نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ تمام قرآن حکیم کا لب لباب بسم اللہ میں ہے اور بسم اللہ کا اس کی ب میں اور ب کا اس کے نقطہ میں جو اس کے نیچے ہے اور وہ نقطہ میں ہوں‘‘۔ پندرہ روزہ ذوالفقار مجریہ،۱۶اپریل۱۹۸۹) معتقدین اور متوسلین کو خوش کرنے کے لئے تو اس طرح کی بے کار روایات سہارا بن جاتی ہیں،لیکن علمی دنیا میں اس طرح کی روایات کا کوئی مقام نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:467

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ