سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(439) مسلمان کا غیر مسلمان ممالک میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہونا

  • 12458
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 984

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں ایک مولاناصاحب نے سورۂ نساء کی آیت نمبر: ۹۶کی تفسیربیان کرتے ہوئے کہا کہ اگرکوئی مسلمان غیرمسلم ممالک میں مستقل طورپررہائش پذیر ہے۔ وہ اگر فوت ہو جائے توجنت کاوارث نہیں ہوگا ،جبکہ ہمارے بے شمار دوست و احباب غیرمسلم ممالک میں رہائش پذیر ہیں؟ وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلے آیت کاترجمہ ملاخطہ کریں ،جس کی تفسیر میں مذکورہ بالابات کی گئی ہے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’جولوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرنے آتے ہیں توان سے پوچھتے ہیں تم کس حال میں مبتلا تھے؟ وہ کہتے ہیں ہم زمین میں کمزورومجبورتھے ،فرشتے انہیں جواب میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے ،ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے جوبہت ہی بری جگہ ہے ۔مگر جومرد اورعورتیں اوربچے فی الواقع مجبور اوربے بس ہیں اوروہاں سے نکلنے کی کوئی تدبیر اور راہ نہیں پاتے امید ہے ایسے لوگوں کواللہ تعالیٰ معاف کردے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والااوربخشنے والا مہربان ہے۔‘‘     [۴/النسآء:۹۷۔۹۸۔۹۹]

حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما ان آیات کے متعلق فرماتے ہیں کہ مکہ میں کچھ مسلمان لوگ تھے جو مشرکین کاساتھ دیتے اورمقابلہ کے وقت ان کی جماعت میں اضافے کاباعث بنتے تھے۔ جنگ وغیرہ میں مسلمانوں کی طرف سے کوئی تیرانہیں بھی لگ جاتا اوران میں سے کسی کوتلوارلگتی توزخمی ہوجاتا یا مر جاتا، ایسے لوگوں کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی ہیں۔    [صحیح بخاری ،التفسیر:۴۵۹۶]

ان آیات میں ہجرت کی اہمیت کواجاگرکیاگیا ہے کہ جب کسی جگہ پررہتے ہوئے دین اسلام پرعمل کرنا مشکل ہوتووہاں سے ہجرت کر جاناچاہیے اوراپنے دین کوبچانے کے لئے فکر کرنی چاہیے۔ لیکن جب پورے عرب میں اسلام کابول بالا ہوگیاتوپھرہجرت کی ضرورت باقی نہ رہی، تاہم اگرکسی مقام پرایسے حالات پیداہوجائیں کہ مسلمانوں کوکسی خطہ میں رہتے ہوئے دینی شعائر بجا لانے ممکن نہ ہوں یاوہاں رہناکفر اوراہل کفر کے لئے تقویت کاباعث ہوتو انہیں وہاں سے ہجرت کرنالازم ہے تاکہ دینی اقدار کو بچایا جائے اورشعائر اسلام پرعمل کیاجائے۔ ہاں! اگرغیرمسلم ممالک میں رہتے ہوئے دینی شعائر بجالانے میں کوئی قدغن یاپابندی نہیں ہے ۔وہاں کے باشندے آسانی کے ساتھ اپنے اسلام پرعمل پیراہیں توان کے لئے وہاں سے ہجرت کرناضروری نہیں ہے۔ اس وضاحت کے بعدمولانا کامذکورہ فرمان محل نظر ہے کہ ’’اگرکوئی مسلمان غیرمسلم ملک میں مستقل طورپر رہائش پذیر ہے اوروہاں فوت ہوجائے توجنت کاوارثٖ نہیں رہے گا ۔‘‘پھر غیرمسلم ممالک سے ہجرت کرکے کس مسلم ملک کارخ کیاجائے جہاں پورااسلام نافذ ہو، بہرحال ہماری نظر میں آج کوئی غیرمسلم ملک ایسانہیں ہے جہاں مسلمانوں کااسلامی شعائر پرعمل کرنادشوار ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:441

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ