سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(423) کٹھن معاشی معاملات کی وجہ سے موت مانگنا

  • 12442
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1067

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

٭  کیااپنے کٹھن معاشی حالات کے پیش نظر موت مانگی جاسکتی ہے ؟

٭  وہ کیاچیزیں ہیں جن کامرنے کے بعد ثواب پہنچتا رہتا ہے ؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دنیامیں کیسے بھی کٹھن حالات ہوں کسی بھی صورت میں موت کی آرزونہیں کرنی چاہیے۔ حدیث میں بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عباس  رضی اللہ عنہ  نے بحالت مرض موت کی تمناکی تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے چچا جان! موت کی تمنامت کیجئے ، کیونکہ اگرآپ نیک ہیں توآپ بقیہ زندگی میں مزیدنیکیاں حاصل کریں گے، یہ آپ کے لئے بہتر ہے اورآپ اگر گناہگار ہیں تواپنے گناہوں سے توبہ کرسکتے ہیں، یہ آپ کے لئے بہتر ہے ،لہٰذا آپ کسی بھی صورت میں موت کی تمنانہ کریں ۔‘‘[مسندامام احمد، ص: ۳۳۹، ج۶]

ایک دوسری حدیث میں بیان ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’تم میں سے کوئی بھی اپنی کسی مصیبت کے پیش نظر موت کی تمنانہ کرے۔اگراس کے بغیرچارہ نہ ہوتواس طرح کہہ لے: ’’اے اللہ تعالیٰ !مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے لئے زندگی بہتر ہے اوراس وقت فوت کرلیناجب میرے لئے مرنا بہتر ہو۔‘‘     [صحیح بخاری ،الدعوات:۲۳۵۱]

مرنے کے بعد میت کومندرجہ ذیل چیزوں کاثواب پہنچتارہتا ہے :

٭  اگرکوئی اس کے حق میں دعا کرتا ہے تومیت اس سے بہرہ ورہوتی ہے بشرطیکہ دعامیں قبولیت کی شرائط موجودہوں۔ حدیث میں بیان ہے کہ اگرکوئی مسلمان اپنے بھائی کے لئے غائبانہ دعاکرتا ہے تووہ ضرورقبول ہوتی ہے ،اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ تعینات کردیاجاتاہے ۔جب وہ کسی کے لئے دعائے خیرکرتا ہے توفرشتہ اس پرآمین کہتا ہے اوراسے اللہ کے ہاں اس کے مثل اجرملنے کی دعاکرتا ہے۔     [مسند امام احمد، ص:۴۵۲، ج۶]

٭  میت کی نذرپوری کرنا۔میت نے اپنی زندگی میں کوئی نذرمانی تھی لیکن اسے پوراکئے بغیرموت آگئی تولواحقین کو چاہیے کہ اسے پوراکریں وہ نذرخواہ روزے یاحج یانمازاداکرنے کی ہو، چنانچہ روزے کے متعلق صحیح بخاری :۱۹۵۲ ،حج کے متعلق صحیح بخاری : ۱۸۵۲، نماز کے متعلق صحیح بخاری تعلیقاً ’’بَابُ مَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ نَذْرٌ ‘‘ مطلق نذرکے متعلق بھی حدیث میں آیا ہے۔[صحیح بخاری ، الایمان والنذور:۶۶۹۸]

٭  میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کوتاکید کی تھی کہ وہ اپنے فوت شدہ بھائی کاقرض ادا کرے

کیونکہ وہ عدم ادائیگی کی وجہ سے اللہ کے ہاں محبوس ہے۔     [مسندامام احمد، ص: ۱۳۶،ج۴]

٭  نیک اولادجوبھی اچھے کام کرے گی والدین کووفات کے بعد اس کافائدہ پہنچتارہتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: انسان کے لئے وہ کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔‘‘ (۵۳/النجم: ۳۹) اوراولادبھی انسان کی کوشش اورکمائی میں سے ہے، جیساکہ حدیث میں ہے۔   [دارمی، ص: ۲۴۷، ج۲]

٭  صدقہ جاریہ اورباقیات صالحات: حدیث میں ہے کہ ’’جب انسان فوت ہو جاتا ہے توتین اعمال کے علاوہ اس کے تمام اعمال منقطع ہوجاتے ہیں، یعنی صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں اورنیک اولاد جواس کے لئے دعاکرتی رہے۔‘‘[صحیح مسلم ،الوصیتہ :۱۶۳۱]

اس سلسلہ میں ایک جامع حدیث بھی ہے، جسے حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انسان کی موت کے بعد جوحسنات اوراعمال جاری رہتے ہیں وہ یہ ہیں:

٭  وہ علم جس کی اس نے لوگوں کوتعلیم دی اوراس کی خوب نشرواشاعت کی ۔

٭  نیک اولاد جواپنے پیچھے چھوڑ گیا۔

٭  کسی کوقرآن کریم بطورعطیہ دیا۔

٭  مسجد بناکر وقف کردی۔

 ٭  محتاج اورضرورت مند کوگھربناکردیا۔

٭  کسی غریب کے لئے پانی کابندوبست کردیا۔

٭  وہ صدقہ جسے اپنی زندگی اور صحت میں نکالا اس کا ثواب بھی مرنے کے بعد بدستورپہنچتا رہے گا۔     [ابن ماجہ السنۃ: ۲۴۲]

درج بالاوضاحت کے علاوہ کچھ چیزیں لوگوں نے خودایجاد کررکھیں ہیں اورایصال ثواب کے لئے انہیں عمل میں لایاجاتا ہے لیکن وقت اورمال کے ضیاع کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا، مثلاً: قل خوانی، ساتواں، چالیسواں اوربرسی وغیرہ قرآن خوانی اورپھر کھانے وغیرہ کابندوبست ہوتا ہے، اس کا میت کوکچھ فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ کتاب وسنت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:428

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ