سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(422) پرانے قرآن جن سے تلاوت کرنا ممکن نہ ہو؟

  • 12441
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1072

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے محلہ کی مسجد میں بڑے سائز کے قرآن مجید پڑے ہیں جن کی حالت انتہائی بوسیدہ ہے۔ پرانے ہونے کی وجہ سے ان پرتلاوت نہیں ہوسکتی، ان کے متعلق شرعاًکیاحکم ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید کاظاہری اورباطنی ادب واحترام ہمارااولین مذہبی فریضہ ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اورجواللہ کے شعائر کی تعظیم کرے گا یہ بات دلوں کے تقویٰ کی علامت ہے ۔‘‘    [۲۲/الحج :۲۲]

اللہ تعالیٰ کی کتاب کاسب سے زیادہ حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے ۔صورت مسئولہ میں بڑے سائز کے پرانے قرآن مجید اگرچہ تلاوت کے قابل نہیں ہیں، تاہم ان کا ادب واحترام اب بھی ضروری ہے جس کی ممکن حدتک حسب ذیل صورتیں ہیں :

٭  آج کل قبرستان میں کچھ لوگ مقدس اوراق کی حفاظت کے لئے ’’قرآن محل‘‘تعمیرکرادیتے ہیں یالوہے کے ٹین اور ڈبوں کو  کسی بجلی کے کھمبے یادیوار سے آویزاں کردیاجاتا ہے ۔ان پر لکھاہوتا ہے کہ مقدس اوراق اس میں ڈالیں ،یہ اچھی سوچ اور بہتر کام ہے لیکن عام طورپر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب یہ قرآن محل یالوہے کے ٹین اورڈبے بھرجاتے ہیں توپھر ان کاکوئی پرسان حال نہیں ہوتا اورمقدس اوراق کی بے حرمتی اس طرح ہوتی ہے کہ تیز ہواچلنے سے یہ اوراق اڑکر کسی پلیدجگہ گر جاتے ہیں۔

 ٭  بعض حضرات زمین میں گڑھاکھودکرا س میں ان اوراق کودفن کرنے کامشورہ دیتے ہیں لیکن ایسا کرنے سے بھی ان کی بے   حرمتی کاخطرہ بدستورقائم رہتا ہے ۔کیونکہ کسی وقت بھی زمین پلیدہوسکتی ہے یاان اوراق کودیمک وغیرہ کاخطرہ رہتا ہے ۔

٭  بعض حضرات ان اوراق کابنڈل بناکران کے ساتھ کوئی وزنی چیز باندھ کربہتے ہوئے پانی میں ڈال دیتے ہیں لیکن یہ بھی کوئی محفوظ طریقہ نہیں ہے۔ کیونکہ بنڈل کھل کران اوراق کے پانی پرآجانے کااندیشہ رہتا ہے بلکہ بعض اوراق کو پانی پرتیرتے ہوئے دیکھابھی گیا ہے۔

 ٭  ایک بہترصورت وہ یہ ہے کہ جسے حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں اپنایا،حدیث میں ہے کہ جب حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کی مختلف نقول تیارکرلیں توجومصاحف ان نقول کے مطابق نہیں تھے انہیں جلادیاگیا ۔[صحیح بخاری، فضائل القرآن: ۴۹۸۷]

حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے پاس چند لوگوں نے حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کوجب جذباتی اندازمیں پیش کیاتوآپ نے فرمایا:’’ مصاحف کے جلانے کے متعلق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے کلمہ خیرہی کہو۔انہوں نے یہ کام کرکے کوئی برااقدام نہیں اٹھایا۔‘‘ [فتح الباری، ص: ۱۲، ج۹]

بہرحال معاملہ ہے بوسیدہ مصاحف اورپھٹے پرانے مقدس اوراق کے تقدس اوراحترام کوملحوظ رکھنے کا ،اس پر کسی صورت میں بھی آنچ نہیں آنی چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:427

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ