سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(344) ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں

  • 12335
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1080

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دوجوڑوں کانکاح وٹہ سٹہ کی بنیاد پر ہوا، پھر گھریلو حالات خراب ہونے سے دونوں لڑکیاں اپنے اپنے والدین کے ہاں چلی گئی اوران کاسامان بھی اٹھوادیاگیا۔ کچھ عرصہ بعد پھرصلح کے لئے پنچائت کااہتمام کیاگیا ۔وہاں ایک خاوند نے غصہ میں آکر تین دفعہ طلاق، طلاق، طلاق کہا۔اب فریقین راضی نامہ کرناچاہتے ہیں کیاایساکرناممکن ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں پہلے وٹہ سٹہ کی شادی ہی محل نظر ہے۔ اسلام نے اس قسم کی نارواشرائط کوجائز ہی قرار نہیں دیا  جوکہ وٹہ سٹہ کی صورت میں ایک دوسرے پر عائد کی جاتی ہیں کیونکہ اس کا نتیجہ وہی برآمدہوا جوصورت مسئولہ میں بیان کیاگیا ہے جو حضرات اس کے متعلق کوئی نرم گوشہ رکھتے ہیں وہ اس نکاح شغار کوچندایک شرائط کے ساتھ جائز قراردیتے ہیں۔ تاہم یہ مسئلہ اپنی جگہ پرقابل اعتبارہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک رجعی شمارہوتی ہے، جیساکہ حضرت ابورکانہ  رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کوایک ہی مجلس میں تین طلاق دیں تھیں پھراس پر نادم و پشیمان ہوئے تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو رکانہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا’’کہ یہ توایک رجعی طلاق ہے اگر چاہوتورجوع کرلو۔‘‘چنانچہ حضرت ابو رکانہ  رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے رجوع کرکے دوبارہ اپناگھرآباد کرلیاتھا ۔ [مسند امام احمد، ص :۲۶۵، ج ۱]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مسئلہ تین طلاق میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے جس کی اورکوئی تاویل نہیں کی جا سکتی۔     [فتح الباری، الطلاق ]

اگرچہ اس انداز سے طلاق دینے کورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ کھیلنا قرار دیا ہے اوراس پر ناراضی کا اظہا ر کیاہے۔     [نسائی، الطلاق:۳۴۳۰]

واضح رہے کہ اس سہولت سے وہی لوگ فائدہ اٹھانے کے حقد ار ہیں جوکتاب و سنت کو ہی آخری اتھارٹی قراردیتے ہیں۔ البتہ جوحضرات تقلید کے بندھن میں جکڑے ہوئے ہیں انہیں مطلب پرستی کے طورپر اہلحدیث کی طرف رجوع کرنا قابل ستائش نہیں ہے۔ بہرحال صورت مسئولہ میں یہ ایک رجعی طلاق ہے اس کے بعد (دوران عدت ازخود) رجوع کی گنجائش ہے اوربعداز عدت نکاح جدید کے ساتھ گھر پھر سے آباد کیاجاسکتا ہے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:357

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ