سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(325) طلاق کے لیے جو بھی لفظ استعمال کرو نیت کا ہونا ضروری ہے

  • 12316
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3945

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری شادی کو تقریباً دو سال ہوچکے ہیں اللہ تعالیٰ نے سال بعد ایک بیٹا عطافرمایاجب وہ اپنی والدہ، یعنی میری بیوی کوتنگ کرتا تووہ اسے گالیاں وغیرہ دے لیتی تھی ۔اس کارویہ میرے لئے انتہائی پریشانی کاباعث تھا۔ بالآخرایک دن میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تونے آیندہ بچے کوگالی دی تومیری طرف سے تو فار غ ہے۔ میرے یہ الفاظ کہنے سے طلاق کا قطعی ارادہ نہیں تھا اورنہ ہی میرے وہم وگمان میں تھا کہ بیوی کوفارغ کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے کچھ دنوں بعد اس نے، پھرگالی دی اور میرے ساتھ بدتمیزی کی، اس پر میں ناراض ہوگیا اوروہ مجھ سے معافی مانگنے لگی میں نے کہا کہ معافی کی ایک ہی صورت ہے کہ تم قرآن کریم پرہاتھ رکھ کرکہوکہ اگر میں نے آیندہ بچے کوگالی دی یابدتمیزی کی توآپ کی طرف سے مجھے طلاق ہے، چنانچہ اس نے قرآن پرہاتھ رکھ کر یہ الفاظ کہہ دیے، اس کے بعد مجھے پریشانی ہوئی تو میں نے قریبی مسجد کے خطیب سے اپنی پریشانی کاذکر کیا اس نے بتایا کہ جوبات تمہارے درمیان ہوئی ہے اسے ختم کر دو، چنانچہ میں نے گھر آکر اپنی شرط کوختم کردیااور اپنی بیوی سے بچے کوگالی دینے کی پابندی اٹھادی۔ میں نے اس بات کومختلف الفاظ میں اتنی باردھرایاکہ اس نے تنگ آ کربچے کوگالی دی اورمیرے ساتھ بدتمیزی بھی کر ڈالی پھراس کاموڈ بھی خراب رہنے لگا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگرتونے اپنارویہ درست نہ کیاتومیری طرف سے فارغ ہے، لیکن میری نیت طلاق کی نہ تھی ۔چنانچہ اس نے میری دھمکی کے بعد اپنارویہ صحیح کرلیا،اب دریافت طلب امریہ ہے کہ مذکورہ بالا ان تینوں صورتوں میں طلاق ہوجاتی ہے یانہیں؟ میں آج کل پریشان اورالجھن کاشکار ہوں ازراہ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں مجھے مطمئن فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

راقم الحروف پچھلے دنوں بواسیرکے آپریشن کی وجہ سے تقریباًایک ما ہ تک صاحب فراش رہا ،اسی دوران ’’احکام و مسائل ‘‘ کے متعلق جوخطوط آئے ہیں ان پربیماری کی وجہ سے توجہ نہ دی جاسکی ،مندرجہ بالا سوال سے متعلق تین فل سکیپ صفحات پر مشتمل خط بھی اس دوران وصول ہوا ۔اس کے بعد سائل نے بذریعہ فون رابطہ کیااورباربار جواب کااصرار کرتا رہا، حالانکہ وہ متعدد اہل علم سے اپنے استفسار کاجواب حاصل کرچکا تھا ۔میں نے بھی فون پراسے مطمئن کیا لیکن سب کچھ کرنے کے باوجود اس نے دو دفعہ اپنے خط کی کاپی بذریعہ کورئیر سروس ارسال کی ۔ان تمام مراحل سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل انتہائی جذباتی اورسیلانی طبیعت کا حامل ہے اورا س سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ  وسواس زدہ اورشکوک و شبہات کاشکار ہے، ہمیں اس سلسلہ میں اپنے رویہ پرنظرثانی کرنا ہو گی۔ گھریلو عائلی زندگی کے متعلق ہم بہت افراط و تفریط کاشکارہیں بالخصوص اپنی اہلیہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے متعلق ہم فراخ دلی سے کام نہیں لیتے اگرکوئی بات اچھے انداز سے سمجھائی جاسکتی ہوتوہم بھی اسے جذباتی انداز میں کہنے کے عادی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   اپنی عائلی زندگی کے متعلق فرماتے ہیں:

’’تم میں سے بہتروہ شخص ہے جواپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے اورمیں اپنے گھروالوں کے ساتھ  انتہائی خوش اخلاقی اورخندہ روئی سے پیش آتا ہوں ۔‘‘

لیکن بالعموم ہماری عادت یہ ہے کہ ہم گھر سے باہر بڑے خوش مزاج ہوتے ہیں۔ لیکن گھر کی چاردیواری میں داخل ہوتے ہی اپنی آنکھوں کوسرپررکھ لیتے ہیں جب کوئی گھر میں غصہ و ناراضی کی بات ہوتی ہے توہماری ترکش سے پہلا تیرطلاق کا برآمد ہوتا ہے، حالانکہ قرآن کریم نے طلاق سے پہلے کم ازکم چارپانچ مراحل کی نشاند ہی کی ہے جب صلح وآتشی کے تمام حربے ناکام ہو جائیں، پھر طلاق کاحربہ استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ وہ اس اندازسے دی جائے کہ آیندہ باہمی مل بیٹھنے کے راستے مسدود نہ ہوں۔ ہم لوگوں نے طلاق کومذاق سمجھ رکھا ہے جب پانی سر سے گزرجاتاہے توپھر علما سے رابطہ کرنے کے لئے دوڑدھوپ شروع ہوتی ہے تاکہ کہیں سے تھوڑی بہت گنجائش مل جائے ۔

راقم نے مذکورہ سوال میں کانٹ چھانٹ کے بعد طباعت کے قابل بنایا ہے یہ خط بھی سائل کے منفی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ بشرط صحت سوال واضح ہوکہ طلاق کے الفاظ کہنے کے اعتبار سے اس کی دواقسام ہیں :

٭  طلاق صریح :واضح اوردوٹوک الفاظ میں استعمال کی جائے ،اسے طلاق صریح کہتے ہیں۔اس میں انسان کے عزم اور ارادہ کودیکھاجاتاہے اوراس نے جانتے بوجھتے ہوئے اپنے ارادہ اختیار سے لفظ طلاق کواستعمال کیا ہے اگراس نے ہنسی مذاق میں یہ لفظ کہہ دیا تب بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس میں انسان کی نیت کوکوئی دخل نہیں ہوتا ہاں، اگر بھول کریاغیرارادی طورپر اس کے منہ سے یہ لفظ نکل گیا ہے توایساکہنے سے طلاق نہیں پڑتی ۔

 ٭  طلاق کنائی :لفظ طلاق واضح طورپر استعمال نہ کیاجائے بلکہ اس کی جگہ اشارے اورکنایہ وغیرہ سے کام لیاگیا ہو،شاید تومیری طرف سے فارغ ہے۔ تیری میری بس توپکی پکی اپنے گھرچلی جا،میں نے تمہیں اپنے پاس نہیں رکھنا وغیرہ اس قسم کے الفاظ استعمال کرتے وقت انسان کی نیّت کودیکھا جاتا ہے اگر نیّت طلاق کی ہے توطلاق واقع ہوگی۔ بصورت دیگر نہیں کیونکہ بعض اوقات مذکورہ الفاظ بطوردھمکی استعمال ہوتے ہیں۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی منکوحہ ’’ابنتہ جون‘‘کوبایں الفاظ طلاق دی تھی تو اپنے گھر چلی جا۔‘‘     [صحیح بخاری ،الطلاق:۵۲۵۴]

لیکن مذکورہ الفاظ حضرت کعب بن مالک  رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کوکہے تھے اوران کاارادہ طلاق دینے کانہیں تھا لہٰذا وہ طلاق میں شمار نہیں ہوئے۔     [صحیح بخاری ،المغازی :۴۴۱۸]

                اسی طرح طلاق کے نافذ ہونے کے اعتبار سے بھی اس کی دواقسام ہیں:

1۔   منجز: اس سے مراد ایسی طلاق ہے جوفی الفورنافذ ہوجائے، مثلاً: یوں کہاجائے کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں ۔

2۔  معلق: جو فی الفورنافذالعمل نہ ہوبلکہ اسے کسی کام کے کرنے یاچھوڑنے پرمعلق کیا جائے، مثلاً: یوں کہاجائے کہ اگرتونے گھر سے باہرقدم رکھا توتجھے طلاق ہے۔ اس صورت میں جب بھی عورت گھر سے باہر قدم رکھے گی تواسے طلا ق ہوجائے گی لیکن اس سلسلہ میں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ خاوند اپنی بیوی پرجوپابندی عائدکرتا ہے۔ ذہنی طورپر اس کی حدبندی کہاں تک ہے۔ بظاہر زندگی بھرکے لئے اس پریہ پابندی عائدکرنااس کامقصد نہیں ہے اورنہ ہی ایسا کہناکسی عقلمندآدمی کوزیب دیتا ہے۔ اگر ذہن میں طے شدہ وقت کے بعد پابندی کی خلاف ورزی ہوتوطلاق غیرمؤثر ہو گی۔ کیونکہ پابندی کاوقت گزرچکاہے اسی طرح معلق طلاق میں اگرپابندی کی خلاف ورزی سے پہلے پہلے اس شرط کوختم کردیاجائے توبھی خلاف ورزی کی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ پابندی عائد کرنے والے نے خودہی اس پابندی کو ختم کر دیا ہے۔ سائل نے جس انداز سے اپنی بیوی کوجوالفاظ کہے ہیں، یعنی اگرتوآیندہ بچے کوگالیاں دے تومیری طرف سے فارغ ہے ۔سائل نے خودہی وضاحت کردی ہے کہ ان الفاظ سے قطعی طورپر طلاق کاارادہ نہیں تھابلکہ میں نے دھمکی کے طورپر یہ لفظ کہے تھے یہ الفاظ طلاق کنائی کاحکم رکھتے ہیں جوکہنے والے کی نیت پرمنحصر ہیں۔ لہٰذااس صورت میں اگر بیوی نے خلاف ورزی کی ہے توطلاق نہیں ہوگی کیونکہ اس نے طلاق کی نیت سے یہ الفاظ نہیں کہے تھے۔ دوسری صورت میں طلاق معلق میں اس نے صراحت کے ساتھ لفظ طلاق استعمال کیاہے اگر اس کی خلاف ورزی پائی جاتی تو قطعی طورپر طلاق واقع ہوجاتی لیکن اس نے دانشمندی سے کام لیتے ہوئے خلاف ورزی کرنے سے پہلے اس شرط کو ختم کر دیا، لہٰذا یہ معلق طلاق خودبخود غیر مؤثر ہو گئی، یعنی اس صورت میں بھی طلا ق نہیں ہوگی۔

تیسری صورت کنایہ کے الفاظ میں طلاق معلق ہے ۔سائل کی وضاحت کے مطابق اس کاطلاق دینے کاارادہ نہیں تھا ویسے بھی بیوی نے اپنارویہ صحیح کرلیا ،لہٰذا اس صورت میں بھی طلا ق نہیں ہوگی مختصر یہ ہے کہ ان تینوں میں طلاق واقع نہیں ہوگی ۔ مسئلہ کی وضاحت کرنے کے بعد ہم پھر اپنی بات کودہراتے ہیں کہ زندگی کے اس بندھن کوکھیل اورتماشانہ بنایا جائے ،یہ کوئی بجلی کابلب نہیںجب چاہالگالیا اور جب چاہااتارلیا۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اسوۂ مبارکہ کوپیش نظررکھنا ہوگا ۔    [واللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:342

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ