سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(323) طلاق کے متعلق جامع ہدایات

  • 12314
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1919

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اہل حدیث رسالہ میں اکثر طلاق وغیرہ کے فتاویٰ ہوتے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں طلاق کے متعلق جامع ہدایات کیا ہیں؟ تاکہ اس اہم معاشرتی مسئلہ کے متعلق ہمیں آگاہی حاصل ہو۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں شک نہیں کہ ہم پڑھے لکھے اورتعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نکاح وطلاق کے اکثر مسائل سے ناواقف ہیں، حالانکہ ان مسائل کا تعلق روزمرہ زندگی سے ہے۔ ہمارادین ایک نظام زندگی پرمشتمل ہے، یعنی زندگی کاکوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کاحل اس میں موجود نہ ہو۔جبکہ باقی ادیان وقتی طورپراورایک خاص قوم کے لئے تھے۔ یہودی مذہب میں خاوند کو صرف تحریر ی شکل میں اپنی بیوی کوطلاق دینے کاحق ہے۔ اس کے بغیر زبانی طلاق دینے کی اجازت نہیں ہے، نیز طلاق کے بعد خاوند کو اپنی مطلقہ بیوی سے رجوع کرنے کی قطعی اجازت نہیں ہے اس کے برعکس عیسائی اورہندومذہب میں انتہائی سنگین حالات کے پیش نظر بھی خاوند کوطلاق دینے کااختیارنہیں جبکہ دین اسلام میں اس قسم کی افراط وتفریط سے بالاترہوکراعتدال پرمبنی راستہ اختیار کیاگیا ہے اگرہم اس پرعمل پیراہیں توزندگی کے کسی موڑ پر ہمیں پریشانی کاسامنانہیں کرناپڑتا ،اس اعتدال کی تفصیل حسب ذیل ہے :

1۔  اللہ تعالیٰ نے اس رشتہ ازدواج کواپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قراردیا ہے، پھرخاوند کوبیوی کے لئے اوربیوی کو خاوند کے لئے سکون واطمینان کاذریعہ بنایا ہے۔ اس طرح کہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے طالب بھی ہیں اور مطلوب بھی اوردونوں میں اس قدرمحبت رکھ دی کہ وہ ایک دوسرے پرفدا ہونے کوتیارہوتے ہیں، اسی جذبہ فدائیت کانتیجہ ہے کہ دونوں اپنے مقدس رشتہ کوتازیست نبھانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔     [۳۰/الروم :۲۱]

2۔  اس رشتہ کی خشت اول یہ ہے کہ نکاح سے پہلے اپنی بننے والی بیوی کوسرسری نظر سے دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ شکل وصورت کی ناپسندیدگی آیندہ شقاق وفراق کاباعث نہ ہو۔حضرت مغیرہ  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کی طر ف پیغام نکاح بھیجا تورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا تونے اسے دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا، نہیں، آپ نے فرمایا: ’’اسے دیکھ لواس طرح زیادہ توقع ہے کہ تم میں الفت پیداہوجائے ۔‘‘ [ابن ماجہ ،النکاح :۱۸۶۵]

3۔  نکاح کے بعد خاوند کوپابند کیاگیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے حسن سلوک اوررواداری سے پیش آئے اوراس سے اچھا برتاؤ کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان بیویوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسرکرو‘‘۔    [۴/النسآء :۱۹]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’اہل ایمان میں سب سے کامل وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جواپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہیں۔‘‘     [مسند امام احمد، ص: ۲۵۰، ج ۲]

4۔   خاوند کواس بات کابھی پابند کیاگیا ہے کہ اپنی بیوی کی معمولی معمولی لغزشوں کوخاطرمیں نہ لائے بلکہ اس کی اچھی خصلتوں کی وجہ سے اس کی کوتاہیوں کونظرانداز کرتا رہے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں توہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں نا گوار ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘    [۴/النسآء:۱۹]

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’کوئی مؤمن اپنی مؤمنہ بیوی سے بغض نہ رکھے اگراسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہوگی توضرورکوئی دوسری پسند بھی ہوگی‘‘ ۔     [مسندامام احمد، ص:۳۲۹،ج ۲]

5۔  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کوعورت کی ایک فطری کمزوری سے بھی آگاہ کیا ہے تاکہ یہ جلدبازی میں کوئی ایسا اقدام نہ کربیٹھے جس پر وہ آیندہ نادم وپریشان ہو۔ آپ نے فرمایا کہ ’’عورت پسلی کی طرح ہے اگرتم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تواسے توڑ دوگے اوراگراس سے فائدہ اٹھانا چاہو تواس کجی کی موجودگی میں فائدہ اٹھاتے رہو۔‘‘     [صحیح بخاری ، حدیث نمبر:۵۱۸۴]

                صحیح مسلم میں ہے کہ ’’ اس کاتوڑدینااسے طلاق دیناہے ‘‘۔     [صحیح مسلم ،الرضاع :۳۶۴۳]

6۔  خاوند اس بات کابھی پابند ہے کہ اگر بیوی میں کوئی ناقابل برداشت چیزدیکھے توطلاق دینے میں جلدی نہ کرے بلکہ امکانی حدتک اصلاح احوال کی کوشش کرے جس کے تین قرآنی مراحل حسب ذیل ہیں ۔

(الف)  پہلاقدم یہ ہے کہ بیوی کونرمی سے سمجھایا جائے اوراس سے اختیار کردہ رویے کے انجام سے آگاہ کیاجائے تاکہ وہ محض اپنی بہتری اورمفاد کی خاطرگھر کی فضا کرمکدرنہ کرے ۔

(ب)  اگرخاوند کے سمجھانے بجھانے کااثر قبول نہیں کرتی توخاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرے میں سوناشروع کر دے اوراس سے میل جول بندکردے اگربیوی میں کچھ سمجھ بوجھ ہوگی تووہ اس سردجنگ کوبرداشت نہیں کرسکے گی ۔

(ج)  اگرخاوند کے اس اقدام پربیوی کوہوش نہیں آتا توپھرآخری حربہ کے طورپر مارنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کی چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں :

٭  مارتے وقت اسے برابھلا اور گالی گلوچ نہ دی جائے ۔

٭  اس کے چہرے پرنہ ماراجائے ۔     [مسند امام احمد ،ص: ۲۵۱،ج ۲]

٭  ایسی مارنہ ہو جس سے زخم ہوجائیں یانشان پڑجائیں ۔    [مسندامام احمد، ص: ۳۷،ج ۵]

ان حدود وقیودکے ساتھ خاوند کو اضطراری حالت میں بیوی کواحتیاط کے ساتھ مارنے کی اجازت دی گئی ہے ۔

7۔  ایسے حالات میں بیوی کوبھی تلقین کی گئی ہے کہ وہ اپنامقام خاوند کے ہاں دیکھتی رہے کہ کیاہے۔ خاوند اس کیلئے جنت ہے وہی اس کے لئے آگ بھی ہے ‘‘۔     [مسند امام احمد، ص: ۳۴۱،ج ۴]

                نیز ’’جب بھی دنیا میں کوئی عورت اپنے خاوند کواذیت پہنچاتی ہے تواس کی جنتی بیویوں میں سے ایک حورکہتی ہے اللہ تجھے بربادکردے اس کوتکلیف نہ دے یہ توتیرے پاس مہمان ہے۔ عنقریب تجھے چھوڑ کرہمارے ہاں آجائے گا۔‘‘   [ابن ماجہ ،النکاح: ۲۰۱۴]

8۔  اگرمیاں بیوی کے درمیان اختلاف انتہائی سنگین صورت اختیارکرجائے کہ مذکورہ تینوں مراحل کارگرثابت نہ ہوں توفریقین اپنے اپنے خاندان میں سے ثالث منتخب کریں جوپوری صورتحال سمجھ کرنیک نیتی سے اصلاح کی کوشش کریں اوربروقت مداخلت کرکے حالات پرکنٹرول کریں ۔اگران کی نیت بخیرہوگی تواللہ تعالیٰ بیوی خاوند میں موافقت کی ضرورکوئی راہ پیداکرے  گا یہ ثالث بیوی خاوند کی طرف سے ایک ایک، دو، دواورتین تین بھی ہوسکتے ہیں۔ جوبات بھی زوجین کوتسلیم ہواختیارکی جاسکتی ہے۔    [۴/النسآء:۳۵]

9۔  اگرمذکورہ جملہ اقدامات سے حسن معاشرت کی کوئی صورت پیداہوتی نظرنہ آئے تواسلام اس بات پرمجبورنہیں کرتا کہ ایک گھرانہ میں ہروقت کشید گی کی فضا قائم رہے اوردونوں میاں بیوی کے لئے وہ گھر جہنم زار بنارہے ۔اس سے بہتر ہے وہ ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں، خواہ مردطلاق دیدے یاعورت خلع لے لے، پھردونوں کااللہ مالک ہے وہ ان کے لئے کوئی نہ کوئی متبادل صورت پیداکردے گا ۔    [۴/النسآء:۱۳۰]

 لیکن مندرجہ ذیل امورکوپیش نظررکھنا ہو گا:

٭  ایسے حالات میں اگرچہ طلاق دینا جائز ہے لیکن شریعت نے اسے ’’ابغض الحلال ‘‘ سیتعبیر کیا ہے۔ رسول ا للہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’حلال اشیا ء میں اللہ کے ہاں سب سے بری چیز طلاق ہے۔‘‘    [مستدرک حاکم، ص :۱۹۶، ج ۲]

طلاق دہندہ کویہ بھی ذہن میں رکھناچاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زندگی بھر اپنی بیوی کوطلاق دینے کے لئے صرف تین اختیارات دیئے ہیں ،وقفہ ،وقفہ سے دومرتبہ طلاق دینے سے رجوع کااختیار بھی اسے دیاگیا ہے اورتیسری طلاق ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے، اس کے بعد عام حالات میں رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی ۔

٭  طلاق دیتے وقت اسے دیکھناہوگا کہ اس کی بیوی بحالت حیض نہ ہو۔شریعت نے اس حالت میں طلاق دینے سے منع کیا ہے تاکہ طلاق وقتی کراہت اورکسی عارضی ناگواری کی وجہ سے نہ ہو،نیز طلاق دیتے وقت اس بات کابھی خیال رکھے کہ اس طہرمیں بیوی سے مقاربت بھی نہ کی ہو، چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا کہ ’’بیوی کوایسے طہر میں طلاق دوجس میں اس سے ہم بستری نہ کی ہو۔‘‘     [صحیح بخاری ،حدیث نمبر:۴۹۰۸]

٭  حالت حمل میں بھی طلاق دی جاسکتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ بات غلط مشہورہوچکی ہے کہ دوران حمل دی ہوئی طلاق نافذ نہیں ہوتی، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طوپر فرمایا ہے کہ ’’اسے حالت طہر یاحالت حمل میں طلاق دو،یہ طلاق جائز اورمباح ہے۔‘‘    [صحیح مسلم ،الطلاق :۱۴۷۱]   

شریعت نے طلاق دینے کااختیار خاوند کودیا ہے عورت کویہ حق نہیں دیا کہ وہ خود کوطلاق دے تاکہ ناقصۃ العقل ہونے کی بنا پر فطرتی جلدبازی میں کسی معمولی سی بات پریہ اقدام نہ کربیٹھے ۔

10۔  اگرخاوند نے اپنی بیوی کوطلاق دینے کاعزم کرلیا ہے توقرآن وحدیث کی ہدایات کے مطابق وہ صرف ایک طلاق دے، خواہ وہ تحریر کرکے یازبانی کہے ،اس کے بعد بیوی کواپنے حال پرچھوڑ دے تاکہ سوچ وبچار کے راستے بند نہ ہوں اورفریقین سنجیدگی اورمتانت کے ساتھ اپنے آخری اقدام پرغوروفکر کرسکیں ۔ایسے حالات میں بیک وقت تین طلاق دینے سے شریعت نے انتہائی کراہت کااظہار کیا ہے ۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کوبیک وقت تین طلاق دے ڈالی تھیں توآپ نے فرمایا ’’میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلاجارہا ہے ۔‘‘آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ ایک آدمی آپ کااظہار ناراضی دیکھ کر کہنے لگا: یارسول اللہ! آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اسے قتل کردوں۔ [نسائی ،الطلاق : ۳۴۳۰]

                 تاہم ایسا اقدام کرنے سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگی۔     [ابوداؤد ،الطلاق:۲۱۹۶]

11۔  ایک طلاق دینے کے بعد رشتہ ازدواج منقطع نہیں ہوتا بلکہ دوران عدت اگرزوجین میں سے کوئی فوت ہوجائے تو انہیں ایک دوسرے کی وراثت سے باقاعدہ حصہ ملتا ہے۔ بہرحال خاوند کوشریعت نے ہدایت کی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالواورنہ خودنکلیں الایہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں۔‘‘

12۔  طلاق کے بعد عورت نے عدت کے دن گزارنے ہیں جن کاشمار انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کی بنیاد پرکئی ایک نازک اورقانونی مسائل کاانحصار ہے۔ مختلف حالات کے پیش نظر عدت کے ایام بھی مختلف ہیں، جس کی تفصیل یہ ہے:

 (الف)  نکاح کے بعد اگر رخصتی عمل میں نہیں آتی توایسی عورت پرکوئی عدت نہیں ہے۔   [۳۳/الاحزاب :۴۹]

(ب)  مطلقہ بیوی اگرحمل سے ہوتواس کی عدت بچہ جنم دینے تک ہے ۔    [۶۵/الطلاق:۴]

(ج)  اگرحمل کے بغیر حیض منقطع ہے، یہ انقطاع بچپن ،بڑھاپے یابیماری کی وجہ سے ہوسکتا ہے توایسے حالات میں تین قمری مہینے عدت کے طورپر گزارناہوں گے اگرمہینوں کاشمار نہ ہوسکے تو90دن پورے کئے جائیں ۔اگرعورت کوایام آتے ہیں توتین حیض مکمل کرناہوں گے ایسی صورت حال کے پیش نظر تین ماہ یانوے دن پوراکرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔    [۲/البقرہ:۲۲۸]

13۔  دوران عدت خاوند کویہ حق ہے کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے لیکن شرط یہ ہے کہ اسے بسانے اورآباد کرنے کی نیت ہواسے روک کرمزیداذیت پہنچانا مقصود نہ ہو۔    [۲/البقرہ:۳۲۸]

اس رجوع کے لئے کسی قسم کے کفار ہ کی ضرورت نہیں ہے اگر عدت گزرجائے توبھی تجدید نکاح سے اپناگھر آباد کیاجاسکتا ہے ۔     [۲/البقرہ :۳۲۲]

لیکن اس نکاح کے لئے عورت کی رضامندی، سرپرست کی اجازت ،حق مہر کی تعیین اورگواہوں کاموجود ہوناضروری ہے، نیز رجوع کاحق پہلی اوردوسری طلاق کے بعد ہے ۔

14۔  اگررجوع کاپروگرام نہیں ہے توعدت گزرنے کے بعد عورت خودبخود آزادہوجائے گی۔ اس کے لئے کسی مزید اقدام کی ضرورت نہیں ہے لیکن ایسے حالات میں اسے الزام تراشی یابدتمیزی سے رخصت نہ کیاجائے بلکہ اس سلسلہ میں اس کے جو حقوق ہیں انہیں فیاضی سے ادا کیاجائے ۔قرآن کریم نے ہدایت کی ہے کہ مطلقہ عورتوں کوبھی معروف طریقہ سے کچھ دے کر رخصت کرو ، ایسا کرنااہل تقویٰ کے لئے ضروری ہے ۔    [۲/البقرہ :۲۴۲]

15۔  اگرتیسری طلاق بھی دے دی جائے تورشتہ ازدواج ہمیشہ کے لئے منقطع ہوجاتا ہے، تاہم عورت کے لئے عدت گزارناضروری ہے لیکن عام حالات میں اس سے رجوع نہیں ہوسکے گا ۔اب رجوع کی صرف ایک صورت ہے کہ وہ عورت کسی سازش کے طورپرنہیں بلکہ آباد ہونے کی نیت سے آگے کسی سے نکاح کرے اوروہ خاوند اس سے مجامعت کے بعد طلاق دے یا فوت ہوجائے توعدت طلاق یا عدت وفات گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہوسکتا ہے ۔    [۲/البقرہ :۲۳۰]

16۔  اگرعورت خاوند کی طرف سے بے اتفاقی کاشکار ہے اوروہ طلاق دے کر اسے فارغ بھی نہیں کرتا توایسی حالت میں عورت کواختیارہے کہ وہ بذریعہ عدالت اپنے خاوند سے علیحدگی اختیارکرسکتی ہے یاخود اس سے کوئی معاملہ طے کرکے طلاق حاصل کرلے، جیسا کہ خلع میں ہوتا ہے ۔    [۲/البقرہ :۲۲۹]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:335

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ