سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(293) طلاق کے متعلق ایک نقطہ نظر کی وضاحت

  • 12284
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1423

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

طلاق کے مندرجہ ذیل نکتۂ نظرکی وضاحت کریں۔

ہفت روزہ’’اہلحدیث ‘‘مجریہ۳رمضان المبارک ۱۴۲۶ھ میں ایک فتویٰ شائع ہوا ہے جوصریحا ًمسلک اہلحدیث کے خلاف ہے سوال یہ تھا کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو ہرماہ ایک طلاق ارسال کرکے تین طلاق کانصاب پوراکردیتا ہے ،کیااس کے بعد رجوع کاتعلق ہے یاعورت اس پردائمی حرام ہوگئی ہے اس کاجواب دیا گیا ہے کہ اگرآدمی وقفہ وقفہ سے تین طلاق دے چکا ہو، جیسا کہ صورت مسئولہ میں ہے تونہ عدت کے اندر رجوع ممکن ہے اورنہ عدت گزارنے کے بعد نکاح کیاجاسکتا ہے، یہ جواب فقہ حنفی کے مطابق ہے ۔مسلک اہل حدیث کی ترجمانی نہیں کرتا کیونکہ اہل حدیث نکتۂ نظر کے مطابق پہلی طلاق کے بعد جب تک رجوع (دوران عدت )یانکاح جدید (بعد از عدت )نہ ہو اس وقت تک دوسری اورتیسری طلاق لغواور غیرمؤثر ہوتی ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے،لہٰذا بعداز عدت اگرعورت رضامند ہوتواس سے دوبارہ نکاح کیا جاسکتا ہے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمیں اللہ تعالیٰ کاشکر اداکرناچاہیے کہ اس کی مہربانی سے ہماری جماعت میں ایسے ’’نامعلوم علما‘‘ موجودہیں جو وقتاً وقتاً ہماری راہنمائی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے مسلک اہل حدیث کاطرہ ٔامتیاز ہے کہ اس میں مسائل کے استنباط میں کسی کی اجارہ داری نہیں ہے بلکہ کتاب وسنت کوبرتری حاصل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ  نے اپنی صحیح میں اسی مسلک کواختیار کیا ہے کہ وہ قرآن وحدیث سے شرعی احکام کااستنباط کرتے ہیں ۔وہ اس بات کوقطعاًخاطرمیں نہیں لاتے کہ مذکورہ شرعی حکم کس امام کے مطابق ہے اور کس کے مخالف ہے ،الحمداللہ ہمارااہل حدیث حضرات کابھی یہی موقف ہے کہ ہم نے شرعی احکام کے بیان کرنے میں کتاب وسنت کومدنظر رکھا ہے۔ وہ کس کے مطابق یا مخالف ہے ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ زیر نظر مسئلہ میں ہمارے موقف کی بنیاد یہ ہے کہ ہم ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق کو ایک رجعی شمار کرتے ہیں،کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز سے دی گئی تین طلاق کوایک رجعی طلاق قراردیا ہے۔     [مسندامام احمد، ص: ۱۶۵،ج ۱]

اس کامطلب یہ ہے کہ اگرمجلس تبدیل ہو جائے، مثلاً: ہرماہ ایک طلاق دے، اس طرح تین مہینوں میں نصاب طلاق (تین طلاق)مکمل کردے تو اس نے مکمل طورپر اپنی بیوی کو زوجیت سے فارغ کردیا ہے۔ اگراس اندازسے دی گئی تین طلاق کوایک رجعی شمار کرنا ہے تومجلس اورغیرمجلس کی تفریق بے سوداورلایعنی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں امام نسائی رحمہ اللہ  نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے ’’طلاق سنت کابیان‘‘اس کے تحت حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ سے اس کی وضاحت نقل کی ہے کہ طلاق سنت حالت طہر میں ہم بستری کئے بغیر طلاق دینا ہے، پھرحیض کے بعد طہر میں طلاق دے، پھر اس طرح آیندہ حیض کے بعد طہر میں طلاق دے۔  [نسائی، الطلاق: ۳۴۲۳]

 اس میں پہلی طلاق کے بعدرجوع یانکاح جدید کی شرط کوبیان نہیں کیا۔ ایسی شرائط محض تکلف ہیں کیونکہ دوران عدت وہ عورت اس کی بیوی رہتی ہے اوروہ اپنی بیوی کوطلاق دیتا ہے وہ عورت دوران عدت بھی طلاق کامحل ہے، ہاں، تیسری طلاق کے بعد اس کانکاح ختم ہوجائے گا۔ اب دوران عدت رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی ۔امام بیہقی رحمہ اللہ  نے اس حدیث کوبایں الفاظ نقل فرمایا ہے: ’’طلاق سنت یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی کوہرطہر میں ایک طلاق دے ۔‘‘ آخری طلاق کے بعد بیوی اس عدت کوپوراکرے جس کااللہ نے حکم دیاہے ۔     [سنن بیہقی، ص:۳۳۲ ،ج۷ ]

ہمارے ’’مہربان‘‘ نے ہرماہ طہرمیں دی ہوئی تین طلاق کوایک رجعی شمارکرکے عدت گزرنے کے بعد جونکاح ثانی کامشورہ دیا ہے وہ جمہور اہل علم کے موقف کے بالکل خلاف ہے۔اسے کسی کاتفرد یاانفرادی طورپر موقف توقراردیاجاسکتا ہے لیکن مسلک اہل حدیث کی ترجمانی نہیں کہاجاسکتا۔واضح رہے کہ ہم نے انتہائی اختصار کے ساتھ اپنے موقف کوبیان کیا ہے۔ بصورت اس پر مزید دلائل بھی دیے جاسکتے ہیں۔     [واللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:308

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ