سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(116) ’سورج نکلنے پہلے ایک رکعت پالی اس نے نماز پالی‘ حدیث کی تحقیق

  • 12071
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 2646

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک حدیث میں ہے کہ جس نے سورج نکلنے سے پہلے ایک رکعت پالی اس نے نماز فجر کوپالیا جبکہ ایک دوسری حدیث میں رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے طلوع آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ وضاحت فرمائیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مکمل حدیث اس طرح ہے کہ ’’جس نے طلوع آفتاب سے پہلے نماز فجر کی ایک رکعت کوپالیا اس نے گویا نماز فجر کو پا لیا او رجس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی وہ نماز عصر پانے میں کامیاب ہوگیا۔‘‘   [صحیح بخاری، مواقیت: ۵۷۹]

                اس حدیث کاقطعًا یہ مقصد نہیں ہے کہ طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت پڑھ لینے سے ہی پوری نماز ادا ہوجائے گی اوراسے بقیہ نمازاداکرنے کی ضرور ت نہیں بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ اگرکوئی شخص طلوع آفتاب یاغروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت پڑھ لے تو اس نے نماز کے وقت ادا کوپالیا ۔اب باقی ماندہ نماز طلوع آفتاب یاغروب آفتاب کے بعد پڑھے گا توبھی اسے وقت ادا میں پڑھنے کاثواب ملے گا۔ نماز کاجوحصہ وقت نکلنے کے بعد پڑھا گیا ہے اسے بھی ادا ہی شمار کیا جائے گا وہ قضا میں شامل نہیں ہوگا ۔جمہور محدثین کے ہاں حدیث کایہی مفہوم ہے، چنانچہ مندرجہ ذیل حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جس شخص نے طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت پالی اور باقی ایک رکعت طلوع آفتاب کے بعد پڑھی تواس نے پوری نماز کوپالیا اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پڑھی اورباقی تین رکعات آفتاب کے بعد پڑھیں تواس نے عصر کی نما زکوپالیا ۔  [بیہقی، ص:۳۷۹،ج ۱]

                اس روایت پرامام بیہقی رحمہ اللہ  نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے ۔

  اس بات کی دلیل کہ اس طرح طلوع آفتاب سے اس کی نماز باطل نہیں ہوگی۔ عرب کے نامور عالم دین شیخ محمد صالح عثیمین رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ اگرکسی کونماز کاوقت ختم ہونے سے پہلے پہلے ایک رکعت پڑھنے کاوقت مل جاتا ہے تووہ گویا پوری نماز وقت ادا ہی میں پڑھتا ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے پوری نماز کوپالیا۔اس کامفہوم مخالف یہ ہے کہ اگرکسی کووقت ختم ہونے سے پہلے پہلے ایک رکعت سے کم حصہ ادا کرنے کاموقع ملتا ہے تووہ وقت ادا کوپانے وا لا نہیں ہوگا، نیز اس کایہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ انسان دانستہ طورپر نماز کومؤخر کرے،نمازی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی نماز وقت ادا میں ہی مکمل کرے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’منافق کی نماز یہ ہے کہ وہ بیٹھا سورج کاانتظار کرتا رہتا ہے جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان چلاجاتا ہے توکھڑا ہوکر کوے کی طرح ٹھونگے مارکر اسے جلدی جلدی مکمل کرلیتا ہے وہ اس میں برائے نام ہی  اللہ کاذکر کرتا ہے۔‘‘     [رسالہ مواقیت الصلوٰۃ ،ص:۱۶]

اورجس حدیث میں طلوع آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے ممانعت کاذکر ہے اس سے مراد اوقات مکروہ کابیان ہے کہ انسان مقصد اور ارادہ سے طلوع یا غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھے ،ایسے اوقات میں نماز پڑھنا اس لئے منع ہے کہ ان اوقات میں کفار عبادت کرتے ہیں اورطلوع وغروب آفتاب کے وقت شیطان کی عبادت کی جاتی ہے اورجوانسان طلوع وغروب آفتاب سے پہلے نماز شروع کرلیتا ہے وہ اس حکم امتناعی میں شامل نہیں ہوگا۔     [و اللہ  اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:149

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ