سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(40) قرآن کو بلا وضو ہاتھ لگانا

  • 11994
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2274

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’لاَ یَمَسُّہُ اِلاَّ الْمُطَھَّرُوْنَ‘‘اس آیت کریمہ کے پیش نظر کیاقرآن پاک کوبلاوضو ہاتھ لگایا جاسکتا ہے یا نہیں کتاب و سنت کے مطابق جواب دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 سوال میں ذکر کردہ آیت کامعنی یہ ہے کہ ـ’’قرآن مجید کوپاک لوگوں کے سوااورکوئی نہیں چھوسکتا۔ ‘‘   [۵۶/الواقعۃ:۷۹]

                مفسرین نے اس آیت کریمہ کے کئی ایک مطلب بیان فرمائے ہیں ۔جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

٭  پاکیزہ لوگوں سے مراد فرشتے ہیں، یعنی یہ کتاب قرآن مجید لوح محفوظ میں ثبت ہے وہاں سے پاک فرشتے ہی لاکررسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   تک پہنچاتے ہیں کسی شیطان کی وہاں تک دسترس نہیں ہوسکتی جواسے لاکرکسی کاہن کے دل پرنازل کردے ۔

٭  قرآن پاک کے مطالب ومضامین تک رسائی صرف ان لوگوں کی ہوسکتی ہیں جن کے خیالات پاکیزہ ہوں اور کفر وشرک کی آلودگی سے پاک ہوں۔ عقل صحیح اورقلب سلیم رکھتے ہوں۔ جن لوگوں کے خیالات ہی گندے ہوں ان کی رسائی قرآن کریم کے بلند پایہ مطالب تک نہیں ہوسکتی ۔قرآن پاک کوصرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔ ناپاک اورگندے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اسے ہاتھ نہ لگائیں۔ شرعی اصطلاح میں لفظ طاہریا مطہر چارچیزوں کے مقابلہ میں استعمال ہوتاہے:

 1۔  کفار ومشرکین کے مقابلہ میں بندہ مؤمن کوطاہر کہا جاتا ہے، خواہ وہ جنبی ہی کیوں نہ ہو۔

2۔  جنابت آلودہ آدمی کے مقابلہ میں غیرجنبی کوطاہر کہا جاتا ہے، خواہ وہ بے وضو ہو۔

3۔  بے وضو کے مقابلہ میں باوضو آدمی پاک ہے، خواہ اس کے کپڑوں پر نجاست لگی ہوئی ہو۔

4۔  نجاست آلود جسم یانجس کپڑوں والے شخص کے مقابلہ میں وہ شخص طاہر ہے جس کے جسم یاکپڑوں پرنجاست نہ ہو۔ ایسے حالات میں قرآنی آیات کامفہوم متعین کرنے کے لئے صاحب قرآن کے ارشادات کی طرف رجوع کرنا ہو گا، چنانچہ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے مراد باوضو انسان ہے، یعنی بے وضو انسان کوچاہیے کہ وہ قرآن پاک کوہاتھ لگانے سے اجتناب کرے، جیسا کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہل یمن کے نام سے ایک ہدایت نامہ میں فرمایاتھا: ’’طاہر انسان کے علاوہ اورکوئی قرآن پاک کوہاتھ نہ لگائے۔‘‘     [دارمی ،کتاب الطلاق ،ص ۱۶۱،ج ۲]

                یہ حدیث حضرت عمروبن حزم، حکیم بن حزم، عبد اللہ  بن عمر اورحضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہم سے متعدد کتب حدیث میں مروی ہے۔ اگرچہ تمام مرویات میں کچھ ضعف پایا جاتا ہے، تاہم کثرت طرق کی وجہ سے اس کی تلافی ممکن ہے، جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ  نے اس حدیث کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے اسے صحیح قرار دیا ہے۔     [ارواء الغلیل، ص: ۱۶۰،ج ۱]

                 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ میرے والد گرامی قرآن پاک کی تلاوت کررہے تھے اورمیں خود قرآن پاک پکڑے ہوئے تھا،اسی دوران مجھے خارش کی حاجت ہوئی تووالدگرامی نے فرمایا ’’شاید تونے خارش کے دوران اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگایا ہے‘‘ میں نے کہا ہاں، تو فرمانے لگے جاؤ! وضو کرکے آؤ۔ چنانچہ میں وضوکرکے دوبارہ واپس آیا۔    [بیہقی ،ص: ۸۸،ج۱]

                حضرت سلمان فارسی  رضی اللہ عنہ سے بھی اسی قسم کاایک واقعہ منقول ہے ،اسحاق مروزی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمدبن حنبل  رحمہ اللہ  سے پوچھا کیابے وضو آدمی قرآن پاک کوہاتھ لگاسکتے ہیں فرمایا: ہاں، لیکن قرآن پاک دیکھ کر پڑھنے کی صورت میں اسے باوضو ہونا چاہیے کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’قرآن پاک کوبے وضو آدمی ہاتھ نہ لگائے۔‘‘ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اورتابعین کایہی معمول تھا۔     [ارواء الغلیل، ص: ۱۶۱،ج ۱]

    اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک کوباوضو ہوکر ہاتھ لگانا چاہیے ہاں! حفظ کرنے والے بچوں کواس کے متعلق رعایت ہے اس کی تفصیل مغنی لابن قدامہ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔      [ص ۲۰۲ج ۱] [و اللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:85

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ