سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22) جشن میلاد اور محفل میلاد کی شرعی حیثیت

  • 11956
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1378

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محفل میلاد کی شرعی حیثیت واضح کریں ،ہمارے ہاں اسے بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے ،اشتہارات میں لکھا ہوتا ہے جشن میلاد مناؤ، گھر گھر سجاؤ، آ گیا ہے ہمار اتمہارا نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ ہمارے ہاں جشن میلاد بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ کھانے پکانے کاخوب اہتمام ہوتا ہے، جگہ جگہ جلوس نکلتے ہیں۔ گلی کوچوں میں چراغان ہوتا ہے۔ بھنگڑے اوردھمالیں ڈالی جاتی ہیں ۔یقینا یہ سب کچھ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ والہانہ عقیدت اورانتہائی محبت کے طور پر کیا جاتا ہے ۔رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کرناایمانی تقاضاہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہمیں آپ سے کس قسم کی محبت کرنے کاحکم دیا گیا ہے۔ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کاتقاضا یہ ہے کہ ہم سب ان اداؤں کو اپنائیں جوزندگی بھر آپ کا معمول رہیں اورآپ کے لائے ہوئے دین کے مطابق اپنے گردو پیش اورماحول کوڈھالیں۔ محبت کایہ معیار خودساختہ ہے کہ سال میں صرف ایک دن رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت کاجشن منالیں اوراپنی پوری زندگی آپ کی تعلیمات کے خلاف بسر کریں۔ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثا رصحابہ کرام رضی اللہ عنہم  اورتابعین عظام رحمہم اللہ  نے اس انداز سے جشن میلاد منانے کااہتمام نہیں کیا، جیسا کہ ہمارے ہاں منایا جاتا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جشن میلاد کے سلسلہ میں ہمارے ہاں رائج معیارِ محبت مطلوب ومقصود نہیں ہے، اس سلسلہ میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں ۔

٭  رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مدنی زندگی میں دس مرتبہ آپ کی ولاد ت باسعادت کادن آیا آپ نے اس قدر اہتمام کے ساتھ نہ خودمنایا اورنہ ہی اپنے جانثار صحابہ کومنانے کاحکم دیا ،بدعت کی تعریف یہ ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک چیز کا سبب موجود تھا لیکن آپ نے اس کااہتمام نہیں کیا، البتہ بعد میں آنے والے اسے عبادت کے طورپر اہتمام سے سرانجام دیں۔ ایسے کاموں کے متعلق رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے کہ’’ جو شخص ہمارے دین میں کسی نئی چیز کورواج دیتا ہے جس کاتعلق دین سے نہیں وہ مردود ہے ۔‘‘     [صحیح بخاری ،الصلح:۲۶۹۷]

٭  عہد رسالت ،عہد صحابہ اورعہد تابعین کے باعثِ خیروبرکت ہونے کی خود رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے شہادت دی ہے آپ نے فرمایا ہے: ’’سب سے بہتر میرا عہدمبارک ہے، پھر اس کے بعد یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم  کا اور اس کے بعد تابعین عظام رحمہم اللہ  کاعہد اس کے بعد جھوٹ اوریاوہ گوئی عام ہوجائے گی۔‘‘ (صحیح بخاری) عید میلاد خیروبرکت کے زمانہ سے بعد میں ایجاد ہوئی ہے، اس لئے بھی اس کی مشروعیت محل نظر ہے۔

٭  رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم سوموا رکاروزہ رکھاکرتے تھے جب آپ سے پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: ’’میں اس دن پیدا ہواہوں اور مجھے اس دن رسالت سے نوازا گیا ہے ۔‘‘    [صحیح مسلم ،الصیام :۲۷۴۷]

                اگر یومِ ولادت مسلمانوں کے لئے عید کادن ہوتا تواس دن روزہ رکھنے کی ممانعت ہوتی۔ کیونکہ عید کے دن روزہ رکھنا شرعاًمنع ہے اگررسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا یوم ولاد ت منایا ہے تو اظہارتشکر کے طورپر اس دن کاروزہ رکھا ہے، اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ یومِ ولادت کے دن عید منانے کے بجائے شکرانے کے طورپر ہرسوموارکاروزہ رکھیں۔

٭  رسول ا ﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے متعلق اکثر اہل علم اوراہل تاریخ حضرات کاقول ہے کہ ۱۲ربیع الاول کوہوئی، پرانی جنتریوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تاریخ کوبارہ وفات کہاجاتا تھا۔ اگر یہی تاریخ یوم ولاد ت کی بھی ہو، جیسا کہ باور کرایا جاتا ہے تو سوچنے کامقام ہے۔ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن ’’جشن ‘‘مناناصحیح ہے ؟اس کے علاوہ محققین علما نے ۹ربیع الاول کو رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کادن قرار دیا ہے اس پہلو سے بھی جشن میلا د پر غور کیا جاسکتا ہے ۔

٭  اسلام نے ہمیں قومی تہوار کے طورپر دوعیدیں منانے کاحکم دیا ہے، ان میں نماز پڑھنے اورتکبیر وتحلیل کہنے کاحکم دیا ہے، شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے خوشی منانے کی اجاز ت دی ہے، لیکن تیسری عید ’’جشن میلاد ‘‘کی پیوندکاری کوکسی صورت میں صحیح قرار  نہیں دیا جا سکتا ۔

٭  خوشی یاجشن منانے کایہ انداز سراسرغیر اسلامی ہے۔ خوشی کے موقع پر جلوس نکالنا، چراغاں کرنا، دھمالیں ڈالنا ،باجے بجانااور گیتوں کے انداز میں نعتیہ کلام پیش کرنادین اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس انداز سے اپنے اکابر کادن منانا کفار کی نقالی اوریہود ونصاریٰ سے مشابہت ہے اورہمیں کفارویہود کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہے کہ ’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے ۔‘‘     [مسندامام احمد،ص: ۹۲ج۲]

       بہرحال عید میلاد کوجس اعتبار سے بھی دیکھا جائے اس کی شرعی حیثیت محل نظر ہے۔ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کے نام پر عقیدت کاایسا مظاہرہ ہے جس کی تائید قرآن پاک، حدیث اورتعامل امت سے نہیں ہوتی ،صحابہ تابعین سے بھی اس کاثبوت نہیں ملتا ۔ [و اللہ  اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:66

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ