سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(190) داڑھی رکھنا فرض ہے اور اسکی حد

  • 11940
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1613

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

داڑھی کا معا ف کرنا فرض ہے با نہیں ؟ اور جو کہتے ہیں کے اسلام میں داڑھی کی کو ئی حد نہیں ہے – ٹو ڑی پر جو کچھ بھی اُگے داڑھی ہے خواہ پو ری ہو یا اسےکو ئی کترنا ہو تو کیا اس کا کہنا صحیح ہے ؟ سائل : حا فظ  سعید محمد ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

داڑھی کا معا ف کرنا فر ض ہے ‘ اسکی مخا لفت وہی کر ے گا جو شرع کے اصو ل و دلا ئل سے نا واقف ہو ۔

اس معنی میں نصو ص بکثرت موجو د ہیں ۔

دارھی کا منڈانا لوط کی قوم میں تھا ۔ اس امت کے فسا ق نے بھی انہی کی تا بعداری کی ہے جس سے رسو ل اللہ ﷺکے قو ل کی تصدیق ہو تی ہے  :  ‘‘ تم  اپنے سےپہلے امتو ں کے طریقوں کے تا بعداری کرو گے ’’ بعض معاصر ڈاکٹرو ں نے داڑھیا ں برھانے پر دین کے عدم اہتمام مو ثا بت کرنے کی کو شش کی ہے لیکن مسلمان انکی مزخرف باتو ں س دھو کہ نہیں کھاتا وہ اپنے نبیﷺ کا ہی تا بعدار رہتا ہے ۔

داڑھی معا ف کرنے کے دلائل بہت ہیں جن میں بعض یہ ہیں :

1۔  اللہ تعا لی ٰ ہا رون کے بات نقل کرتے ہو ئے فرماتے ہیں :

﴿يَبنَؤُمَّ لا تَأخُذ بِلِحيَتى وَلا بِرَ‌أسى...٩٤﴾...سورة طه

’’ اے میرے ماں جائے بھائی ! میر ی داڑھی نہ پکڑاور میرے سر کے بال نہ کھینچ۔‘‘

یہ نبی ہیں انبیاء میں سے جو داڑھی کا اطلا ق کر رہے جو پکڑی جا سکتی ہے ۔

2۔  قول اللہ تعا لیٰ :

﴿وَلَـٔامُرَ‌نَّهُم فَلَيُغَيِّرُ‌نَّ خَلقَ اللَّـهِ ۚ ...١١٩﴾... سورة النساء

’’ اور ان سے کہوں گا کے اللہ تعا لیٰ کی بنا تی ہو ئی صو رت بگا ڑ  دیں ۔‘‘

 تو یہ صریح نص ہے مے اللہ تعا لی ٰ کی اجا زت مے بغیر اسکی تخلیق کو بدلنا شیطا ن کی اطا عت اور رحمٰن کی نا فرما نی ہے ۔

رسو  ل اللہ ﷺ نے اللہ تعا لیٰ کی تخلیق میں جس مے لئے تبدیلی کرنے والی عو رتوں پر لعنت فرمائی ہے تو اس میں حسن کے لئے داڑھی  منڈانابھی بلا شک حدیث   مذ کو رلعنت میں داخل  ہے ’ علت دونوں کی مشتر ک ہو نے کی وجہ سے جیسے کے ظاہر ہے ۔ دیکھیں تما م المنع ص ( 78۔80 )

 3 ۔ ابن عمر ﷜ سے روایت ہے وہ روایت کرتے ہیں رسولاللہ ﷺ سے آ پ نے فرما یا : (( اَحفظو ا الشوار ب و اغفوا الحیٰ )) ( مونچھیں پست کرو اور داڑھیا ں معا ف کرو ) ( بخاری 2؍ 129 ) نسائی ( 3؍ 1039 ) ۔

اور بخاری مسلم کی ایک روایت  میں ہے ’  ابن عمر ﷜ سے مرفوعا ً روایت ہے : ((انھکواالشو ارب واغفو اللحیٰ ))  ( مو نچھیں ختم کرو اور داڑھیا ں معا ف کرو ) ۔

اور  صحیح بحاری ( 2؍ 875) میں ابن عمر سے روایت ہے وہ کہتے کے رسو اللہ ﷺ نے فر ما یا: 

« خا لفو االمشرکین  او فرو اللحیٰ  زواحفو االشوارب»

’’ مشرکوں کی مخا لفت کرو ’ داڑھیاں بڑھا ؤ اور مو نچھیں خوب کترو۔‘‘

اور ابن عمر جب حج و عمر ہ کرتے تھے تو اپنی داڑھی سے مٹھی بھرتے جو زائد ہو تی اسے لے لیتے’ جو مو نچھیں بڑھا تا ہے اور داڑھی منڈاتا  ہے اس نے مشرکو ں کی مشا بہت کی ۔

4 ۔  عبداللہ بن عبا س ﷜ سے مروی ہے کے رسو ل اللہ ﷺ نےمردوں کے سا تھ مشا بہت کرنے والی عو رتو ں اور عو رتوں سے مشا بہت کرنے والے مردوں پر لعنت فرما ئی ہے ( بخا ری ۔ المشکا ۃ 2؍ 380)

5۔ ابو ہریرہ ﷢ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کے رسو ل اللہ ﷺ نے  فرما یا :

«جزواالشو ارب  وارخو االلحیٰ خا لفو ا المجو س»

( مو نچھیں کترو اور داڑھیاں لٹکاؤ ’ مجو سیو ں کی مخا لفت کرو ) ( ابو عو انہ اور مسلم 1؍ 129 )

6۔ عا ئشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کے وہ کہتی ہیں کے رسو ل اللہ ﷺنے فرما یا : فطری خصائل دس ہیں : مو نچھیں کترنا ’ داڑھی کا معا ف کرنا ’ مسو اک ’ نا ک میں پانی ڈالنا ’ نا خن کترنا ’ انگلیوں کے جوڑ  دھو نا ’ بغلوں کے بال اکھیڑنا ’ زیر نا  ف بال مونڈ نا ’ استنجا ء کرنا ) الحدیث ۔۔ ( مسلم : 1؍ 129 ) المشکاۃ ( 1؍44) ۔

رسو ل اللہ ﷺ نے داڑ ھی معا ف کرنےکو فطرت قرار دیا  ہے ۔

جا ننا چا ہئیے کے اصو ل میں یہ ثا بت ہے کے امر وجو ب کے لئے ہوتا ہے  ’ اللہ تعالی ٰ کے اس قول  کی وجہ سے :

﴿فَليَحذَرِ‌ الَّذينَ يُخالِفونَ عَن أَمرِ‌هِ أَن تُصيبَهُم فِتنَةٌ أَو يُصيبَهُم عَذابٌ أَليمٌ  ٦٣﴾...سورة النور

 (سنو ! جو لوگ حکم رسول کی مخا لفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چا ہیے کہ  کہیں ان پر کو ئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد نا ک عذاب نہ پہنچے ) ۔

 اسکے اور بھی دلا ئل ہیں تو جو ان او امر کو استحبا ب پر حمل کرتا ہے وہ نصوص اور اصو ل کی مخا لفت کرتا ہے۔

ان دلائل سے داڑھی معا ف کرنے کی فر ضیت بتا کید ثا بت ہو تی ہے اور نبی ﷺ خو د بھی اسی صفت سے مو صو ف تھے۔

بخا ری و مسلم اور نسا ئی ( 3؍ 1063 ) میں روایت آئی ہے : ‘‘ باب اتخا ذ اجمہ ’’ ( جمہ بال رکھنے کا باب )

 بر اء ابن عا زب ﷜ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ درمیا نہ قد شخص تھے ’ سینہ چو ڑا ’گھنی داڑھی والے ’ سرخی ما ئل ’ آپکے با ل کا نو ں کی نر می تک پہنچے ہو ئے تھے میں نے آپ کو سرخ سو ٹ میں دیکھا ’ آ پ ﷺ سے زیادہ حسین میں نے کسی کو نہیں دیکھا ۔ آداب الزفا ف ص  ( 135 ) میں تفصیل ملا حظہ کریں ۔

امام احمد  نے ( 5؍ 264) میں روایت کیا ہے ۔ ابو امامہ ﷺ سے روایت ہے وہ کہ رسول اللہ ﷺانصا ر مےکچھ لو گو ں پر نکلے ’ انکی داڑھیا ں سفید تھیں تو کہنے لگے : ‘‘ اے انصا ر کی جماعت ! سرخ یا زرد کر کے یہودیو ں کی مخا لفت کرو  ’’ تو  انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسو ل اللہ ! اہل کتا ب تو داڑھیا ں کترتے اور مو نچھیں بڑھاتے ہیں تو رسو ل ا للہ ﷺنے فرمایا :

« و فر وا غنا نینکم و قصرو ا سبا لکم و خا لفو ااھل الکتا ب»

’’ تم اپنی داڑھیا ں گھنی کرو اور مو نچھیں کتر و اور اہل کتا ب کی         مخا لفت  کرو ’’ ۔ اسکی سند حسن ہے ہیثمی نے المجمح ( 5؍ 131) میں روایت کیا ہے ۔

 العثا نین جمع ہے ’’عثنو ن ‘‘ داڑھی کو کہتے ہیں ۔ اور سبا لکم  جمع ہے ’’سبلة‘‘ حرکت کے سا تھ  مو نچھ کو کہتے ہیں ۔ اسی طرح الصحیح (3؍149) میں ہے ۔

یہا ں ایک اور مسئلہ ہے کہ مٹھی سے زائد داڑھی کا کتر نا جا ئز ہے یا  نہیں ۔

تو ہم کہتے ہیں : اسمیں کچھ آثا ر آئے ہیں جو ذکر کئے جاتے ہیں :

اول : ابن عمر ﷺ سے روایت ہے وہ جب حج یا عمر ہ کرتے تو داڑھی سے مٹھی بھر لیتے جو زائد ہو تی کتر لیتے ’’ ۔

( بخا ری : 2؍875) ابو داؤد ( 1؍ 328 ) باب القو ل عند الافطا ر ’ اور نسائی کتا ب الصو م اور حاکم ( 1؍ 422) اور دار قطنی اور اما م زیلعی نے نصب الرایہ ( 2؍ 457) میں متعدد سندوں سے ذکر کیا ہے ۔

دوم : ابن ابی شیبہ کہتے ہیں : حدیث سنائی ہمیں ابو اسامہ نے شعبہ سے وہ بن ایوب سے جریر کی اولاد سے وہ ابو زر عہ سے وہ کہتے ہیں کہ ابو ہریر ہ داڑھی مٹھی میں پکڑلیتے جو مٹھی سے زائد ہو تی لے لیتے تھے ’ ذکر کیا ہے ۔ ( ابن ابی شیبہ : 8 ؍ 373 ) اسے نصب الرایہ میں ذکر کیا ہے پھر کہا ہے : ان آثار کا اشکا ل ہے حدیث (اعفواللحیٰ ) کے سا تھ اوروہ صحیحن میں ہے ۔ زیلعی نے اشا رہ کیاہے کہ مرفو ع کو لینا بہترہے ۔

تیسری :  جا بر کہتے ہیں : ہم مو نچھوں کو لمبا کرتے تھے مگر حج اورعمر ہ میں ۔ ( ابو داؤد  2؍ 225 ) اور  سند  اسکی ضعیف ہے ۔

چوتھی : عمر بن الخطا ب نے ایک شخص کے ساتھ اسی طرح کیا تھا جیسے کہ تحفة الحوذي ( 4/ 11) میں ہے ’ پھر علماء  کے اقوال ذکر کرتے ہو ئے کہا ہے اور جو یہ کہتا ہے کہ مٹھی سے زائڈ لیا جا ئے اور ابن عمر اور ابو ہر یر ہ کے آثا ر سے استدا ل کرتا ہے تو یہ ضعیف ہے  کیو نکہ معا ف کرنے کی حد یثیں مرفو ع اور صحیح ہیں جو ان آثار کی نفی کرتی ہیں پس یہ اثار استدال کے قابل نہیں ہیں ’ جب یہ مر فوع صحیح حد یثیں موجو د ہیں تو زیا دہ سلامتی والا قول ہے وہی ہے جو اعفاء کی حد یث کے ظاہر پر قول کرنا ہے اور داڑھی کے طو ل وعر ض س کترنا مکروہ سمجھتا ہے ۔ واللہ اعلم ۔

صالح بن عثیمن کہتے ہیں :  ‘‘ اور جو تم نے بعض لو گو ں سے سن رکھا ہے کہ داڑھی کترنی جائز ہے خصو صا ً جب مٹھی بھرسے زائد ہو او بعض اہل علم اس طرف گؔئے ہیں مٹھی بھر سے زائد کے بار  ے میں اور کہتے ہیں: مٹھی سے زائد کا کترنا جائز ہے اور سند پکڑتے ہیں عبد اللہ بن عمر ﷜ کی حدیث سے جو بخا ری میں ہے کہ وہ حج یا عمر ہ کرتے تو  مٹھی سے زائد کا کترلیتے تھے لیکن بہتر وہی ہے جس پر سابقہ احادیث کا عموم دلا لت کرتا ہے ۔ نبیﷺ نے کو ئی حال مسثنی ٰ نہیں کیا ۔

او ر صاحب درالمختا ر کا ( 5؍ 261 )  میں یہ کہنا کہ ‘‘ داڑھی میں سفید بالوں کا نو چنا اور اطراف  سے داڑھی کا کترنا کو ئی حرج کی بات نہیں ’ سنت اس میں مٹھی بھر ہے اسی لئے داڑھی کا کا ٹنا حرام ہے تو یہ خطاء ہے ۔

میں کہتا ہوں : سفید بال نو چنے کے بارے میں نہی گزر چکی کہ ‘‘سفید بال مت اکھاڑو ’’ تو یہ کا مکر وہ ہے جیسے کہ فتا ویٰ شیخ السلام ابن تیمہ     ( 31؍ 120 ) میں ہے

با قی رہا داڑھی کا کترنا او یہ سنت میں  کہیں بھی نہیں ہے ۔ تو اسے سنت نہیں کہنا چا ہیے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص415

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ