سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(186) ابرؤوں کے بال اکھیڑنا حرام اور پنڈلیوں کے بالوں کا ازالہ جائز ہے

  • 11936
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1935

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مرد و عورت کے لئے  ابرؤوں  کے بال  کترنا جائز ہے  اور کیا دونوں  کے لئے پنڈلی اور ہاتھوں  وغیرہ  کے بال  مونڈنا جائز ہے ؟ تفصیل سے بیان کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عبداللہ بن مسعود  ﷜ سے روایت ہے وہ کہتے  کہ اللہ تعا لیٰ لعنت کرنے گودنے والیوں اور گودوانے والیوں پر منہ کے بال نکالنے والیوں اور نکلوانے والیوں پر خوبصورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں پر ان سب اللہ کی خلقت بد لنے والیوں پر ’’۔ الحد یث ۔

متمصات : وہ عورتیں جو اُ وبروں کو باریک کے لیے اسکے بال نو چتی ہیں ۔ (نہایہ  لسا ن العرب )

امام نو وی نے شرح صحیح مسلم ( 205/2) میں کہا ہے : النا مصہ : وہ عورت جو چہرے سے  بال اکھا رتی ہے اور المتنصمہ : وہ عورت جو یہ کام طلب کرتی ہے ۔ یہ کام حرام ہے۔

 لیکن اگر عو رت کی داڑھی یا مو نچھ نکل آئے تو اسکا زائل کرنا حرام نہیں بلکہ مستحب ہے مما نعت تو آ بروں اور چہرے کے کناروں سے بال اکھا ڑنے میں ہے ۔

میں کہتا ہوں : یہ ممانعت مردوں عورتوں  دونوں کو شامل ہے‘ رہا ہاتھو ں اور پیروں سے  بالوں کا ازالہ تو اگر زیادہ ہوں تو اسکے  ازالے میں کو ئی حرج نہیں کیونکہ یہ بد شکل کرتے ہیں اگر عادت کے مطابق تو اہل علم میں سے بعض کہتے ہیں کہ انہیں رہنے دینا چاہیئے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدلنے کے زمرے میں آ تا ہے اور راجح یہی ہے کے اسکا ازالہ جائز ہے کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے سکوت اختیار کیا ہے اور نبی ﷺ نے فرمایا  ہے : ‘‘ جس سے اللہ تعا لیٰ سکوت اختیا ر کر ے  وہ معاف ہے’’ ۔

اور عنقریب ذکرآئے گا کے تما م اشیاء میں اصل اباحت ہے مگر جہا ں اسکے خلاف دلیل قائم ہو جائے ۔

مال کی تین قسم ہیں :

1 ۔ قسم اول : جس کے لنیے کی حرمت پر  شارع کی نص موجود ہے ۔

2۔ دوسری قسم : حس کے لنیے پر شارع کی نص موجود ہے ۔

3۔ تیسری قسم :  جس سے شارع نے سکو ت اختیار کیا ہو ۔

جس کے لینے کی حرمت میں شار ع کی نص موجود ہے تو اسے نہ لیا جائے جیسے مرد کی داڑھی ‘ مرد عورت دونوں کی ابروئیں اور وہ جس کے لینے پر شارع کی طرف سے نص ہو تو اسے لینا چائیے جیسے بغل اور شرمگا ہ کے بال اور مرد کی مو نچھیں ‘ اور جس سے سکوت اختیا ر کیا گیا ہوں وہ معا ف ہے ‘ اگر  اللہ تعالی ٰ اسکا وجود نہ چاہتا تو اسکے ازالے کا حکم دیدتا ۔ اور اگر اللہ تعالیٰ اسے باقی رکھنا چاہتا تو اسے باقی رکھنے کا حکم دیدتا ۔ جب سکوت اختیا ر کیا ہے پھر انسان کے اختیار کے ساتھ رکھتا ہے ‘ زائل کرنا  چاہتا ہے زائل کرے ‘ باقی رکھنا چاہتا ہے ‘باقی رکھے ۔

باقی رہا دبر کے بال لینے کا مسئلہ :

تو امام نو وی  نے شرح  مسلم ( 128/1)  میں کہا ہے : ‘‘ عانہ سے مراد وہ بال ہیں جو مرد کے ذکر کے اوپر اور آس پاس ہیں اور اسی طرح وہ بال جو عو رت کے فرج کے آس پاس ہیں ۔ اور ابو العبا س بن سر یج سے نقل ہے کے عانہ میں وہ بال بھی شامل ہیں جو حلقہ دبر کے آس پاس ہیں تو ان تما م اقوال سے حاصل یہ ہو کہ قبل ودبر کے آس پاس تمام بالوں کا مونڈنا مستحب ہے ’’ ۔

اور نبیﷺ کے باالصفا پو ڈے مے استعمال کے بارے میں ضعیف احادیث آئی ہیں جیسے کے ابن ماجہ ( 2؍ رقم : 3751) میں ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے ’ نبی ﷺ جب بال صفا  استعمال کرتے تو پہلے شرمگاہ پر لگا تے اور پھر سارے بدن پر ۔ تفصیل کے لئے دیکھو ( 1؍ 160 )

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص411

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ