سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(183) سر کے بال مونڈھنے کی چار قسمیں اور ہر ایک کا حکم

  • 11933
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2826

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سر کا مونڈھنا   نبی ﷺ  سے کسی حدیث  میں ثابت  ہے ؟۔عبد السلام (1415/3/5ھ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی قسم: حج یا عمرے  میں سر کا مونڈھنا : اس کا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے  اور یہ کتاب وسنت  اور اجماع امت  سے مشروع  ہے ۔ اللہ تعالیٰ  فرما تے ہیں:

﴿لَتَدخُلُنَّ المَسجِدَ الحَر‌امَ إِن شاءَ اللَّـهُ ءامِنينَ مُحَلِّقينَ رُ‌ءوسَكُم وَمُقَصِّر‌ينَ لا تَخافونَ...٢٧﴾... سورة الفتح

’’ان شآ ء اللہ  تم یقینا پورے  امن امان کے ساتھ مسجد حرام  میں  داخل ہو گے   سر  منڈوا تے  ہو ئے  اور سر کے بال کترواتے ہوئے (چین کے ساتھ ) نڈر ہو کر ۔‘‘

اور نبی ﷺ سے حج اور عمرے  میں سر منڈوانا  تو اتر سے  ثابت ہے ۔

اور اسی طرح صحابہ کرام  میں سے  بعض نے  مندوایا  اور بعض نے  کتروایا  اور کتروانے سے منڈوانا   افضل  ہے ۔ اسی لئے رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا :( اللہم ارحم   المحلقین) اے اللہ ! سر منڈوانے  والوں پر رحم فرما ۔‘‘ صحابہ کرام  نے غرض  کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ!: (والمقصیرین )  اور کترانے  والوں پر بھی ‘‘، فرمایا : اے اللہ ! منڈوانے والوں پر رحم فرما ،  انہوں  نے  کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ !: اور کترانے والوں پر بھی ‘‘فرمایا : اے اللہ  منڈوانے والوں پر رحم فرما ‘‘۔ انہوں نے کہا :’’ اور کترانے  والوں پر ‘‘۔فرمایا :’’ اور کترانے  والوں پر ‘‘۔

دوسری قسم :ضرورت کے لئے سر منڈوانا ،مثال کے طور پر  بغرض  علاج منڈوانا  تو یہ بھی  کتاب و سنت سے  اور اجماع  امت  سے  جائز ہے ۔ اللہ تعالیٰ  نے محرم  جس کے لئے  سر منڈوانا جائز  نہیں ہے  اگر اسے جؤوں  وغیرہ  کی تکلیف  ہے تو  سر منڈوانے کی رخصت  دی ہے ۔ جیسے کہ اللہ تعالی ٰ  نے فرمایا ہے :

﴿وَلا تَحلِقوا رُ‌ءوسَكُم حَتّىٰ يَبلُغَ الهَدىُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كانَ مِنكُم مَر‌يضًا أَو بِهِ أَذًى مِن رَ‌أسِهِ فَفِديَةٌ مِن صِيامٍ أَو صَدَقَةٍ أَو نُسُكٍ...١٩٦﴾...سورة البقرة

’’اور  اپنے سر مت منڈواؤ  جب تک کہ قربا نی  قربان گاہ تک پہنچ جائے  البتہ تم میں سے جو بیمار  ہو یا  اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو  تو اس پر فدیہ ہے  خواہ روزے رکھ لے ،  خواہ صدقہ دے ، خواہ قربا نی کرے ‘‘۔

اور باتفاق  مسلمین ثابت ہے ۔حدیث کعب بن عجرہ ﷜  کی  جب نبی ﷺ  اس کے پاس سے گزرے  عمرہ حدیبیہ  میں اور  جوئیں  ان کے سر  سے گر رہی تھی  تو فرمایا :’’ تمھیں   تمھارے   جانور تکلیف  دے رہے ہیں ؟‘‘ انہوں  نے کہا : ہا ں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنا سر منڈوا لے  اور بکری کی قربانی کرے یا تین روزے رکھے ، یا ایک فرق  کھا نا چھ مسکینوں  میں تقسیم  کر دے ‘‘۔  اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے  اور تمام مسلمانوں  نے اسے  قبولیت کے ساتھ لیا ہے۔

تیسری قسم :عبادت  گزاری ، تدین  اور زہد  کے طور  پر سر منڈوانا  بغیر حج و عمرے کے  مثال کے طور پر  اگر  کوئی معصیت  کی  زندگی   سے توبہ کرتا ہے تو  اس کو سر مڈوانے کا  کہا جاتا ہے  اور مثال کے طور پر  سر کا منڈوانا  عبادت گزار  اور دین داروں کاشعار  سمجھا جائے   یا زہد وعبادت  کی تکمیل   اس میں سمجھتے ہیں تو  اس طرح  سے سے کا منڈوانا  بدعت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم نہیں دیا  اور نہ ہی اللہ کے رسول ﷺ نے اس کا حکم نہیں دیا  ہے ۔ اور یہ ائمہ دین  میں  سے کسی کے نزدیک  واجب یا مستحب  نہیں ہے ۔

صحابہ کرام وتابعین  میں سے  کسی نے  کیا ہے ، نہ  زہد وعبادت  میں مشہور  مسلمانوں  کے مشائخ  صحابہ وتابعین ، اتباغ تابعین  یا ان کے  بعد  فضیل بن عیاض ، ابراہیم بن ادہم ، ابو سلیمان الدرارانی  اور المعروف  الکرخی  وغیرہ  نے کیا ہے ۔

 چوتھی  قسم: مناسک کے علاوہ بلا ضرورت اور تقرب کی نیت  کے  بغیر سر کا مونڈوانا۔ اس میں علماء کے دو قول ہیں ، اور امام احمد سے دو روایتیں ہیں ۔

1۔ یہ مکروہ ہے  اور  امام مالک وغیرہ کا مذہب ہے ۔

2۔ اصحاب ابی حنیفہ اور شافعی  کے نزدیک  یہ مباح ہے  کیو نکہ نبیﷺ  نے ایک لڑکا  دیکھا   جس  کے سر کا کچھ حصہ مونڈا  ہوا تھا  تو آپ نے فرمایا :( احلقوا کله  او اترکوہ کله )( یا سارا  منڈوا دو یا سارا چھوڑ دو )

 اور چھو ٹے  بچے آپ کے پاس تین دن بعد لا ئے جاتے  آپ  ان کے سروں کو مونڈ دیتے  اور اس لئے کہ آپ نے  قزع سے منع فرمایا ہے اور قزع  سر کے کچھ حصے کو مونڈنے  کو کہتے ہیں  تو اس سے  سارے سر کے مونڈنے پر دلالت ہوتی ہے ۔

پہلے قول  والے کہتے ہیں : سر منڈوانا اہل بدع کا شعار ہے  ، خوارج اپنے سر منڈوایا کرتے تھے  اور سر منڈوانے کو عبادت  اور توبہ  کی تکمیل  شمار کرتے ہیں  اور صحیحین  میں ثابت ہے  کہ نبیﷺ غنیمت تقسیم کر رہے تھے  تو فتح کے سال  ایک آدمی  گھنی داڑھی  والا  سر منڈا آیا  اور حدیث میں ہے :( سیماھم  التحلیق)’’ ان کی علامت سر منڈوانا  ہے ‘‘۔ تلخیص کے ساتھ  از مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ ((119-115/21

اور میں کہتا ہوں :پانچویں قسم:مصیبت  کے وقت سر مونڈنا  ہے  یہ کبیرہ گناہوں  میں سے ہے  حدیث میں آتا ہے  رسول اللہﷺ ن ے فرمایا :’’ میں اس سے بری ہوں  جو مصیبت کے وقت  سر منڈوائے ، اپنے آپ کو تھپڑ  مارے یا گریبان  پھاڑے ۔(المشکاۃ (150/1

ابن قدامہ  المغنی ((103/1  میں کہتے ہیں  :مسٔلہ  نمبر (107): امام احمد سے سر مونڈوانے  میں  روایتیں مختلف ہیں  ایک روایت  ان کی  یہ  ہے کہ مکروہ ہے  بوجہ اس حدیث  جو خوارج کے بارے میں  نبیﷺسے مروی ہے  کہ ان کی علامت  سر منڈوانا ہے  اسے  ان کی علا مت  قرار دیا ہے  ۔ اور عمر ﷜  نے صبیغ کو کہا : اگر میں  نے تجھے سر منڈا پایا تو  تو میں اسے تلوار  مار دوں گا  جس میں تیری آنکھ ہے۔(سر)۔

 اور نبیﷺ سے مروی ہے :’’پیشانی   کے بال نہ ہٹاے جائیں  مگر حج و عمرے  میں ‘‘۔ روایت کیا ہے  اسے دارقطنی  نے الافراد میں اور  یہ کنز الاعمال  میں برقم (12150۔12151)ہے۔ ابن عباس ﷜ نے کہا  :’’ جو شہر  میں سر منڈواتا ہے  وہ شیطان ہے ‘‘۔

امام احمد  کہتے ہیں  کہ وہ  اسے مکروہ  سمجھتے  تھے  اور انہی  سے مروی   ہے  وہ اسے مکروہ  اس لئے  سمجھتے  تھے کہ  اس کا ترک کرنا  افضل  تھا  الخ۔اور عبدالقادر  الجیلانی  کی الغنیہ (15/1 )  میں ہے :’’فصل : حج و عمرے کے علاوہ   اور بلا ضرورت سر منڈوانا  امام احمد  کی دو میں سے ایک  میں سے امک  روایت میں مکروہ ہے ۔ پھر سابقہ روایات   ذکر کر کے  کہا ہے کہ روایت میں ہے  کہ نبیﷺ نے اپنی آخری عمر میں   جبکہ آپ کے بال کنوھے  تک پہنچے  تھے  اپنا سر منڈوا دیا تھا ۔

مین  کہتا ہوں : وہ احادیث جن کا عبدالقادر جیلانی  غنیۃ میں مخرج اور سند کے بغیر  کرتے ہیں  اس کا کوئی اعتبار نہیں ۔ مذکورہ ہمارے بیان سے  ثابت ہوا کہ نبی ﷺ نے حج و عمرہ  کے علاوہ  اپنا سر نہیں منڈوایا   تو بلا ضرورت  منڈانے  سے بال رکھنا  افضل ہے سوائے  حج و عمرے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص405

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ