سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(64) اجرت لے کر میت کے لیے قرآن پڑھنا

  • 11868
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1157

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک حافظ قرآن جو اجرت لے کر لوگوں کونماز پڑھاتا ہےیا میت کےلیے قرآن پڑھتا ہے اور قراءت سے پہلے ہی اجرت وصول کرلیتا ہے تو کیا یہ جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید کی تلاوت  افضل عبادت ہے اور  عبادات  کے بارے میں اصول یہ ہے کہ وہ خالص لوجہ اللہ ہوں ان سےمقصد اللہ کے سوا اور کچھ نہ ہو نہ دنیا کا حصول اورنہ  حب جاہ وغیرہ۔ بلکہ ان کی رحمت کی امید اور اس کے عذاب کاڈر ہو ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ فَاعبُدِ اللَّهَ مُخلِصًا لَهُ الدّينَ ﴿٢ أَلا لِلَّهِ الدّينُ الخالِصُ...﴿٣﴾... سورة الزمر

’’ یقیناً ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے یقیناً ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے ‘‘()خبردار! اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے‘‘

نیز فرمایا:

﴿وَما أُمِر‌وا إِلّا لِيَعبُدُوا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ حُنَفاءَ... ﴿٥﴾... سورة البينة

’’ انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر اور نماز کو قائم رکھیں اور زکوٰة دیتے رہیں یہی ہے دین سیدھی ملت کا‘‘

حضرت  عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے  ہوئے سنا:

عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ أَبِي حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إلَى مَا هَاجَرَ إلَيْهِ".(صحيح البخاري بدء الوحي باب كيف كان بدء الوحي الي رسول الله ﷺ الخ حدیث:1‘54 وصحیح مسلم الامارۃ باب قولہﷺ انما الاعمال بالنیۃ ..الخ حدیث:1907)

(امیر المومنین ابو حفص عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے۔ اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہےجس کی اس نے نیت کی۔ پس جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی جانب ہے تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ ہی کی جانب ہے۔ اور جس کی ہجرت دنیا کےلیے ہے کہ اسےکمائے یا عورت کے لیے ہے کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت انہی کی جانب ہے)

لہذا قرآن کے کسی قاری کےلیے  یہ جائز نہیں کہ وہ  اپنی قراءت پر اجرت لے خواہ یہ اجرت قراءت لینے کی رخصت نہیں دی ۔ یاد رہے کہ ائمہ مساجد یامؤذن حضرات جو بیت المال سے تنخواہ لیتے ہیں تو وہ تلاوت  یانماز کی اجرت نہیں ہے بلکہ وہ  تو اس بات کی اجرت ہے کہ انہوں  نےاپنے تمام مشاغل ترک کرکے  اپنے آپ کو اس  فرض کفایہ کے اداکر نےکےلیے وقف کردیا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے  خلیفۃ المسلمین اپنےذاتی روزگار کو ترک کرکے جب اسلامی خلافت کے اعمال واواجبات میں مشغول ہوجاتا ہے تو بیت المال سے وظیفہ لیتا ہے۔ جضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےمجاہدین کو اور ان لوگوں کو جنہوں نےاسلام میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہوتے تھے ان کی ایمانی سبقت اور اسلامی خدمات  کے اعتبار سےبیت المال سےوظائف دیاکرتے تھے اور اس سے بڑھ کریہ کہ اللہ تعالیٰ نےعاملین زکوۃ کے لیے اس  اسلامی فریضہ کو ادا کرنےکی وجہ سےزکوۃ میں حصہ مقرر کیا ہے خواہ وہ دولت مند ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ جب تک وہ اس فرض کو ادا کرتے ہیں خود اپنا کاکوئی کام نہیں کرتے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص61

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ