سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(56) قرآن مجید کے معانی کا ترجمہ

  • 11859
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1684

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نےمجلۃ العربی عدد237بابت ماہ شعبان 1398ہ میں ڈاکٹر محمد احمد خلف اللہ  کا ایک مقالہ پڑھا ہےجس کا  موضوع تھا ’’ مطالعہ قرآن ... اعتراضات کا جواب  نئے زاویوں سے‘‘

امید ہے کہ آپ اس مقالہ کو ملاحظہ فرمائیں  گے خاص طور  پڑ اس کے اس حصہ کو جو ترجمہ قرآن سے متعلق ہے اور ان کے کلام سےبظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مراد حرفی ترجمہ سے ہے ۔ترجمہ قرآن  کے جواز کے بارے میں  انہوں  نے جو اسباب  بیان کیے ہین ان کے بارےمیں  آپ کی کیا رائے ہے؟رہنمائی فرمائیں۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوزےاور اپنی شریعت اور اپنے نبی محمدﷺ کی سنت کا دفاع کرنےوالوں میں سےبنائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ڈاکٹر صاحب کےمذکورہ مقالہ  سےیہ واضح ہوتا ہےکہ ان کی مراد قرآن مجید کےمعانی  کاترجمہ   جائز ہے جب کہ یہ  ترجمہ کوئی ایسا عالم کرے جو قرآن مجید کے معانی کو صحیح طور پر سمجھتا ہو اور انہیں  دوسری  زبان  میں صحیح طور پر بیان کر سکتا ہو اور یہ تعبیر ایسے دقیق انداز میں ہو جس سے نصوص قرآن کے معنی صحیح صحیح سمجھ میں آجاتے ہوں تاکہ قرآن مجید کےمعانی ومطالب کو ان لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ بھی اداکیاجاسکے جو عربی زبان  نہیں جانتے۔شیخ الاسلام احمد بن تیمیہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل  اصطلاح سے ان کی اصطلاح اور ان کی لغت کے مطابق ہونا مکروہ نہیں ہے جب کہ اس کی ضرورت نہ ہو تو ائمہ  نےاسے مکروہ قراردیا ہے۔ ’’نبی اکرم ﷺ نےام خالد بنت سعید بن عاص  سےفرمایاتھا  جب  کہ وہ چھوٹی بچی تھیں اوروہ  سرزمیں  حبشہ میں پید ہوئی تھیں کیونکہ ان کےوالد ہجرت کے وہاں تشریف لے کر گئے تھے تو آپ نے فرمایا تھا  آئے ام خالد !’’ھذاسنا‘‘ اور زبان حبشہ میں سنا کےمعنی حسن کے  کے ہیں-

(صحیح لبخاري اللباس الخمیصه السوداء حدیث :5832)

آپ نےیہ لفظ اس لیے استعمال کیاکہ ام خالد کی یہ زبان تھی لہذاجو شخص قرآن وحدیث کو سمجھنے کےلیے ترجمہ  کا محتاج ہو تو  اس کےلیے ترجمہ کیا جا نا چاہیے۔ اس طرح معلم کو بھی چاہیے وہ دوسر ی قوموں کی کتابوں کو ان کی زبان میں پڑھے اور عربی میں ترجمہ کرے جیساکہ نبی اکرمﷺ نےحضرت زید بن ثابت  رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا تھاکہ یہودیوں کی کتاب کو سیکھیں تاکہ وہ  آب کے لیے ان  کی زبان مین لکھنے پڑھنے کی خدمت کو سرانجام دےسکیں کیونکہ یہودیوں پر اعتماد نہیں تھا۔

(صحیح البخاري الاحکام باب ترجمة الحکام وھل یجوز ترجمان واحد؟ حدیث:7195 معلقا  سنن ابي داؤد  العلم باب روایة حدیث اھل الکتاب حدیث:3645 وجامع الترمذي الاستئذان حدیث:2715)

صوتی ترجمہ جائز نہیں ہے اس سےقبل مجلس کبار علماء سعودی عرب نے بھی اس سلسلہ میں قراد داد منظور کی ہے مزید تفصیل کےلیے ملاحظہ فرمائیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص56

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ