سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(17) خوب صورت آواز سے قرآن مجید کی تلاوت

  • 11795
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2889

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فضیلۃ الشیخ! ترنم سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے کیا معنی ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سنت صحیحہ میں  ترنم سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے‘ تو اسےمراد تحسین صوت ہے اسم کے معنی یہ نہیں کہ قرآن مجید کی تلاوت گانے کے انداز میں کی جائے صحیح حدیث میں ہے:

«مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ حَسَنِ الصَّوْتِ بِالقُرْآنِ يَجْهَرُ بِهِ»(صحيح البخاري التوحيد باب قول النبيﷺ  الماهر بالقرآن مع سفرةالكرام البررة.... الخ ح:7544وصحيح مسلم صلاة المسافرين باب استحاب تحسين الصوت باالقرآن ح:  792

’’ اللہ تعالیٰ نےاور کسی کی طرف  اس طرح کان نہیں لگائے جس طرح  اپنے  نبی کی قرآن مجید کی جسن صوت  اور بلند آواز سے تلاوت کی طرف کان لگائے ہیں۔‘‘

ایک اور حدیث میں ہے  کہ:

«لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالقُرْآنِ» (صحيح البخاري التوحيد باب قول الله تعالى واسروا قولكم اواجهروبه..... الخ حديث،7527)

’’ وہ ہم مسں سے نہیں ہے جو خوبصورت اوربلند آواز سے قرآن کی تلاوت نہ کرے۔‘‘

مذکورہ حدیث میں اللہ تعالیٰ کے جو  کان لگاکر قرِآن مجید سننے کا ذکر ہے‘ تو یہ سننا اس   طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی  کےشایان شان ہے۔ اس میں صفت میں بھی اللہ تعالی اپنی دیگر  تمام صفات  کی طرح مخلوق سے مشابہ  نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کان اور سننے کے بارےمیں بھی وہی کہا جائے گا جو اس کی دیگر صفات کے بارے  میں  کہا جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اس طرح پوری  ہیں جس  طرح اس کی ذات گرامی کےشایان شان ہیں‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لَيسَ كَمِثلِهِ شَىءٌ ۖ وَهُوَ السَّميعُ البَصيرُ‌ ﴿١١﴾... سورة الشورىٰ

’’اس جیسی کوئی چیز نہیں وه سننے اور دیکھنے والا ہے‘‘

(تغنی)(یعنی  ترنم سےتلاوت کرنے) سے مراد بلند اور  خوبصورت آواز کےساتھ خشوع  خضوع  سے تلاوت کرنا ہے تاکہ اس سے  دل کے تار  ہل جائیں اور مقصود بھی یہی ہے کہ قرآن  سے دل ہلا دیئے جائیں تاکہ دلوں میں خشوع پید ہو او راطمینان  وسکون بھی اور  وہ  قرآن مجید سے استفادہ بھی کرین۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہےکہ ایک بار نبیﷺ کا ان کے پاس سے گزر ہوا تو وہ قرآن مجید کی تلاوت کرہے تھے آپ  نے ان کی تلاوت کو سننا شروع کردیا  اورپھر فرمایا:

«يَا أَبَا مُوسَى لَقَدْ أُوتِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ»(صحيح البخاري فضائل القرآن باب حسن الصوت بالقراءة للقرآن حديث 5048وصحيح مسلم صلاة االمسافرين باب  استحباب تحسين الصوت بالقرآن حديث 793وسنن النسائي الافتتاح تزين القرآن بالصوت حديث 1022 والفظ له)

اسے تو آل داود علیہ السلام  کا سا لحن عطا کیا گیا ہے۔‘‘

جب سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ نےانہیں بتایا کہ آپ ان کی تلاوت سنتے رہے ہیں تو انہو ں نے عرض کیا :’’یا رسول اللہ ! اگر مجھے یہ معلوم  ہوتا کہ آپ میری تلاوت  سن رہہے تو نیں اور بھی  زیادہ  خوبصورت  طریقے سے تلاوت کرتا۔

(السنن الکبری للبیہقی :230۔231مسند ابی یعلی 7279/13)

 نبی ﷺ نے انہیں خوبصورت  طریقے سے پڑھنے سے منع کیا نہیں فرمایا تو اس سے  معلومک ہواکہ حوبصورت  آواز میں بڑے اہتمام کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کنا امر مطلوب ہے تاکہ پڑھنے اور سننے والے میں خشوع بھی پیداہو اور دونوں قرآن مجید سے استفادہ بھی کریں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص30

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ