سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(114) ایک گناہ سے توبہ کرنا اور دوسرے سے توبہ نہ کرنا

  • 11689
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 899

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص مثال کے طور پر زنا اور چوری سے تو توبہ کرتا ہے لیکن سود خوری اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے توبہ نہیں کرتا کیا اس کی توبہ قبول ہوگی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حول ولا قوة الا بالله

امام قرطبی ؒ (5/90) میں فرماتے ہیں "امت کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالی کے قول "اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو"(نور : ۳۱) کے مطابق توبہ مؤمنوں پر فرض ہے اور یہ توبہ ایک گناہ سے اس کے علاوہ کسی دوسری نوع کے گناہ پر قائم رہنے کے باوجود درست ہے یہ اہل سنت کا مذہب ہے بخلاف معتزلہ کے کہ کسی گناہ پر قائم رہتے ہوئے یہ توبہ درست نہیں۔ اور ایک معصیت کا دوسری معصیت سے کوئی فرق نہیں۔"

امام ابن قیم ؒ نے مدارج السالکین  (1/273) میں اس کے بارے میں عمدہ تحریر فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "گناہ سے تابہ درست ہے اگرچہ دوسرے گناہ پر مصر ہو ۔ اس میں اہل علم کے دو قول ہیں اور امام احمد ؒ کی دو روایتیں ہیں ۔ اور جو اس کے صحیح ہونے پر اجماع نقل کرتے ہیں وہ اس اختلاف پر مطلع نہیں ۔ جیسے امام نووی وغیرہ۔ مسئلہ مشکل ہے اور اس میں گہرائی ہے اور دونوں اقوال ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ میرے نزدیک اس مسئلہ میں ایک گناہ سے توبہ درست نہیں جبکہ اس نوع کے دوسرے گناہ پر اصرار ہو۔ رہی توبہ کرنی ایسے گناہ سے کہ دوسرے گناہ کا مرتکب ہو اور اس گناہ کا اس گناہ سے کوئی تعلق نہ ہو تو توبہ صحیح ہے جیسے کوئی سود سے توبہ کرے اور شراب خوری سے توبہ نہ کرے تو سود سے اس کی توبہ صحیح ہے لیکن اگر سود تفاضل سے توبہ کرے اور سود نسیہ سے توبہ نہ کرے تو اس کی توبہ مردود ہے۔ الخ "

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص221

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ